Wednesday 10 December 2014

اگر آپ وی آئی پی ہیں تو!


اگر آپ وی آئ پی ہیں تو
(زیتون بی بی(عالیہ ممتاز



کراچی ایک شہر ہے عالم انتخاب میں..بقول یوسفی اگر کراچی کو الٹا ہوکر دیکها جائے تو کراچی کی ہر چیز سیدهی دکهائ دیتی ہے..ہم نے چونکہ بچپن میں ہی یوسفی صاحب کی یہ بات گرہ میں بانده لی تهی لہزاہ ہمیں کراچی ہمیشه سیدها نظر آیا..ہمارا خیال ہے کہ ہمارے علاوہ کراچی کو سیدها دیکهنے کا اعزاز صرف بندروں اور چمگا ڈروں کو حاصل ہے..
خیر جناب وہ احباب جو کراچی سے تعلق نہیں رکهتے انکی سہولت کےلئے ہم کو شش کرتے ہیں کہ بارے کچه کراچی کہ بیاں کردیں...خیال رہے کہ ہم نے لفظ تعلق استعمال کیا ہے ..کراچی کو دیکهنے کی شرط ہم نے نہیں لگائی کیونکہ یہ دعوئ تو ہم بهی نہیں کرسکتے کہ ہم نے کراچی دیکها ہوا ہے..
خیر جناب اگر آپ کی آنکه میں بگولہ سما جائے یا بگولہ کو آپ کی آنکهیں مل جائیں تو کراچی کو دیکهنا چنداں مشکل نہیں ہے ..
جناب کراچی کے طول وعرض کی کیا بات کریں کہ کراچی کے چاروں طرف بهی کراچی ہی ہے .ہاں سہولت کے لئے یہ کہ سکتے ہیں کہ شیطان کی آنت کی لمبائ کو ڈهائ سے ملٹی پلائ کریں تو کراچی کی لمبائ ٹهیک ٹهیک معلوم کی جاسکتی ہے..اسک اندازہ ہم نے ایسے بهی لگایا کہ دوسرے ملکوں یا دوسرے شہروں میں اگر ہم اتنی مسافت طے کریں تو دوسرے شہر او ر کبهی کهی تو دوسرے ملک شروع ہوجاتے ہیں .....
کراچی ک تعمیر میں خاص دهیان رکها گیا ہے کہ خدانخواستہ یہ شہر کہیں خوبصورت نا لگنے لگے......دقیانوسی اور محبت کی ماری مائیں جس طرح آپنے کالے پیلے بچون ک چہروں پے ان سے بهی زیادہ کالا ٹیکہ لگا کر نظر ب یعنی اپنی ہی نظر سے محفوظ تصو ر کر لیتی ہیں بلکل ایس ہی کراچی محبت کے مارے لوگوں نے کراچی کے چہرے پر ایسے ٹیکے اتنی بڑی تعداد میں لگائے کہ اب صرف ٹیکے ہی نظر آتے ہیں کراچی کہیں منہ چهپائے بیٹها ہے..
کراچی کی ترتیب وتخریب میں ایک خاص قسم کا بهونڈوں پن پایا جاتا ہے..عمارتوں کے درمیان اتنا فاصلہ اتنے اہتمام اور شدت سے برقرار رکها گیا ہے کہ انکے درمیان جی بهر کر کچرا اور گندگی پهیلائ جاسکے..
پلوشن فری کراچی کے تصور سے ہی ہم کراچی والوں کا جی متلانے لگتا ہے..
خیر سے کراچی کی آبادئ اتنی ہے کہ بس اسٹاپوں پر ہمہ وقت اتنے لوگ موجود ہوتے ہیں جتنے نواز شریف اور بلاول کے جلسوں میں بڑے خرچے کر کے بلائے جاتے ہیں ..
ہمارا خیال ہے کہ فیس بک کانادر خیال کراچی ہی کی دیواروں کو دیکهکر آیا ہوگا ..کونسی پروڈکٹ اور بائ پروڈکٹ ہے جسکااشتہار ان دیواروں پے نہیں ہوگا ..سیاسی اور سنیاسی سارے بابا ہمیں دیواروں پے نظر آجایئں گے ....ہم بہت اہتمام اور خوشخطی کے ساته غلیظ اشتہار لکهتے ہیں ...ایک ہی دیوار پر آپکو اسلامی اور سرخ انقلاب گڈ مڈ نظر آئیں گے ..کئ دفعہ تو ہم نے اسلامی انقلاب اور بهٹو کے زندہ ہونے کی خبر نالے کی دیوار پر پڑهی ..
کراچی میں پچهلے پچیس سالوں میں کچه ایسی چیزیں متعارف ہوئیں جن سے باقی ملک کی خلق خدا محروم و محفوظ ہے ..اللہ محفوظ ہی رکهے ..مثلا کراچی کو کفن کا آلٹرنیٹ بوری انٹروڈیوس کرانے ک اعزاز حاصل ہے ...اس سے پہلے بقول یوسفی بوری سے اشرفی آٹا نکلتا تها ..خیر سے ہم نے اس تصور کو نئ جہت عطا کی ....
موبئل اسنیچنگ .اغوا برائے تاوان اور لینڈ مافیا کی انڈسٹرزنے دن دونی اور رات چوگنی ترقی کی ..اگر کراچی میں رہتے ہوئے آپ ا موبائل نہیں چهینا گیا ہے و اسکے دو ہی مطلب ہوں گے..یا تو آپ کے پاس موبئل نہیں یا آپ خود ...
کراچی مین ایک اور انڈسٹری ہے جس ے بارے میں غیر کراچی والے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں ..
لیکن یہ انڈسٹری سال میں صرف ایک ہی دفعہ کام کرتی ہے..جی ہاں قربانی کی کهالوں کی انڈسٹری ...
بس جناب کیا کیا جائے کہ ہم کراچی والے دوہری قربانی دیتے ہیں ..ابهی جانور گهر میں نہیں آتاکہ اسکی یا چارے کی بو پر کهالیں لینے والے چلے آتے ہیں ....جماعت اسلامی والے ایک پرچی پکڑا کہ جاتے ہیں کہ دوسری ہی سانس میں ایم کیو ایم والے آجاتے ہیں ..
اور جانور کو قصاب سے بهی زیادہ بری نظروں سے دیکهتے ہیں..
ایک دفعہ تو ہم نے کہ دیا کہ جناب آپ کهال اتار کر لے جائیں ہم بکر ے کو چادر میں بانده کر کهڑا کر دیں گے ..آگے اسکی قسمت ..جوابن ہمیں بهی ایسی ہی نظروں سے دیکها گیا..
کراچی کے موسموں کے بارے میں بهی کچه معلومات دینا ہم اپنی زمہ داری سمجهتے ہیں .ہمارے ہاں دو موسم پائے جاتے ہیں ..یعنی گرمی اور شدید گرمی ....اکثر تو ہمیں استخارے کرنے پڑتے ہیں کہ اے سی اٹهارہ پے چلانا ہے یا چهبیس پر ..
یہی کچه ہے ساقی متاع فقیر..
ہاں باقی ملک سے موسمی مطابقت پیدا کرنے کے لئے ہم موسم کا اندازہ بهی چہرے دیکهکر کرتے ہیں ..مزاجوں کی خشکی اگر کهال بهی نظر آنے لگے تو سمجه لیں کراچی میں سردی ہے ..یا پهر گورے کالے اور کالے بد رنگ ہو جائیں تب بهی یقیں ہو جاتا ہے کہ سردی آنہیں رہی سردی آگئ ہے...
باقی رہ گئے خزاں اور بہار تو اسکی نوبت اس لئے نہیں آتی کہ کراچی میں سبزہ بس اتنی ہی مقدار میں نظر آتا ہے جتنا ہم جیسے اناڑی پینٹر جب ہرا رنگ استعمال کرتے ہوئے برش کو جهٹک دیں تو جتنے چهینٹے کینوس پر سبز رنگ کے نظر آتے ہیں اتنا ہی کراچی میں سبزہ ہے ..کیونکہ دوچار یا ڈهائ پونے تیں قسم کی لوکل گورئمنت رہی ہیں انہوں نے بڑے ہی اہتمام اور دل جمعی سے پرانے پرانے درخت کاٹ 

ڈالے ..یہاں انسانوں کو ہی نہیں پرندوں کو بهی بے گهر کرنے کا کام خاصا تسلی بخش کیا جاتا ہے ..

جناب کراچی ک زکر کریں اور اس کی سڑکوں کا زکر نا ہو ..یہ ممکن نہیں ہے .کیونکہ کراچی میں رہ کر آپ کا واسطہ سب سے زیادہ سڑکوں سے ہی پڑتاہے..آپ نے وہ قومی نغمہ تو سنا ہی ہوگا ..'' چاند میری زمیں پهول میرا وطن .'' ..ہمیں یقین ہے کہ چاند کی زمیں پر اگر کوئ سڑک ہوگی تو وہ ہو بہو ایسی ہی ہوں گی ...
.بڑی ہی منتوں مرادوں سے جو سڑکیں بنائ جاتیں ہیں اور جن کو بنانے والوں کا رخ زیبا ابهی زیبا یعنی سڑک ہی کی طرف ہوتا ہے .اچانک کچه محکموں کو یاد آتا ہے کہ جہاں یہ سڑک بنائ گئ ہے اسکے عین نیچےتو گیس یا پانی کے زخائر ہیں..لہزاہ اسی خضوع خشوع کے ساته اسکو دریافت کرنے کے لئے کهدائ شروع کری جاتی ہے....
کبهی کبهی تو ہمیں ایسیا لگتا ہے کہ یا تو کهدائ کر کے پورا شہر دفن کرنے کا پلان ہے یا پهر نیا شہر دریافت کرنے کا ارادہ ..اس ساری کهدائ کے نتیجے میں جو مٹی اڑتی ہے اسکی ایک مناسب تہہ کراچی والوں کے چہرے پر سلیقے سے جم جاتی ہے .جو پانی نا ہونے ک صورت میں ایک دوسرے ہی نہیں تیسر ے کے منہ پر ہاته پهیر کر تیمم کا جا سکتا ہے....
دروغ بگردن راوی..
کراچی والوں کے کچه شوق دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں..ایک کهانے کا دوسرے مرنے کا ....خیر مرنے اور مارنے کے کام تو بخوبی ہو رہے ہیں ..لیکن ایسا لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی بل عموم اور کراچی کی بلخصوص واحد تفریح کهانا ہے ..
ہم اس کهانے کی بات نہیں کر رہے جو ادارے فروختند چہ ارزاں فروختند ..کے زمرے میں آتا ہے ..کیونکہ اگر ہم نے اس پر لکهنا شروع کیا تو فیس بک کی ساری دیواریں کم پڑ جائیں گی ..
ہم ریسٹورینٹ اور ڈهابوں والے کهانوں کی بات کر رہے ہیں ....اگر کوئ نوارد کراچی آئے تو اسکو ایسا گمان ہوگا کہ کراچی کی ساری خواتیں نے یا تو کهانا پکانے سے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے یا پهر ہم نے گهروں میں کچن بنانے چهوڑ دیے ....ڈهابوں اور سڑک چهاپ ہوٹلوں کا زکر ہی کیا نامی گرامی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈز کی چینوں میں ویک اینڈ پے آپکو باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے..
بعضے بعصے تخت ہوٹل تو آپکو نالے کی دیوار کے ساته بهی مل جائیں گے..جہاں مطمین بهوکے بڑے مزے سے یا تو مرغی کے غسل میت یعنی سوپ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے یا پهر مرحومہ مرغی کی چتا کو بهنبهوڑ رہے ہوں گے .اپنی تسلی کے لئے ہم نے انکو بروسٹ اور روسٹ کے نام دے رکهے ہیں .
..دوسرا شوق جو اسکے ساته روکن کے طور پر ملتا ہے وہ ہے بیمار ہونے کا ..فراز نے شائد اس لئے ہی کہا تها کہ .
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز 
آنکهیں بهجی بجهی ہیں تو چہرے تهکے تهکے..
تو جناب ہم کها کها کر بیمار ہوتے ہیں اور دوبارہ کهانے کے لئے صحت یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ..
اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک تیسری صنعت یعنی اسپتالوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے..
اس سارے قصے اور قضئے کی وجہ بهی ایک سرکاری اسپتال کا چکر تها ..ویسے تو ہماری نوک زبان جو دعا ہوتی ہے اور جس میں ہم بلا تخصیص سب کو شامل کر لیتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ سب کو ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے بچائے .
اب ہم نے اس میں اضافہ یہ کر لیا ہے کہ اللہ سب کو عام آدمی ہونے سے بهی بچائے ..
واقعہ یوں ہے کہ ہمیں ایک سرکاری اسپتال کے درشن کا موقعہ ملا...خیر سے ملا بهی وی آی پی کی سنگت میں ....اگر آپ وی آئ پی ہیں تو سارے دروازے کهل جا سم سم کی طرح چوپٹ ہو جاتے ہیں .بس پاس ورڈ وی آی پی ڈال کر دیکهیں ...
کراچی کے ایک دو بڑے سرکاری اسپتالوں کا درشن ہم نے پہلی دفعہ کیا..ہمیں تو یہ اسپتالوں سے زیادہ مسافر خانے لگے ..لواحقین مریض بڑے ہی سکون سے اسپتال کے فٹ پاتهوں پے محو استراحت تهے..ہمیں انکے اطمنان پر زیادہ غصہ آیا ...ایسی اونٹ قوم قسمت والوں کو ملتی ہے ..جتنا چاہو بار برداری کا کام لو اور کهونٹے سے بانده دو..یہی صورت حال پورے اسپتال کی تهی ..آنکهوں کے وارڈ میں چونکہ مریض صرف آنکهوں کی شکایت کے لئے آتے ہیں اسلئے لفٹ جیسی عیاشی کو بند کر دیا گیا تها .اسلئے مطمئیں اونٹ قوم اپنے مریضوں کو دهاتی اسٹریچر پر سکون سے تیسری منزل تک لے جا رہی تهی..صفائ کے تو نمبر ہی نہیں ملنے تهے لہزاہ اس طرف سے ہم بری الزمہ ہی ہو گئے تهے..آنکهوں کے معائنے کی مہنگی تریں مشینیں موجود تو تهیں لیکن خراب ..کیونکہ ہم نے کهلی آنکهوں سے کیا دیکه لینا تها..
خیر جناب دوسرے اسپتال کی حالت زار میں فرق یہ نظر آیا کہ یہاں زیادہ گندگی تهی اور زیادہ اطمنان .
ڈاکٹروں سے لے کر عملے تک اور مریضوں سے لے کر انکے لواحقین تک سب مطمئیں نظر ائے .کوئ شکوہ نہیں .کیونکہ شکوہ کے لئے اس احساس کا ہونا بہت ضروری ہے جسکو اپنا حق کہتے ہیں ..ہر چیز پر کمپرومائز ہماری عادت ہوگئ ہے .ہمیں کہیں بهی اپنی حق تلفی یا زلت محسوس نہیں ہوتی ..کوئ موت دکها کر بخار پر راضی کرلے تو ہم اسکو اپنا مسیحا سمجه لیتے ہیں .
اس لئے ہر گدها گهوڑا ہمارے سروں پر بیٹه جاتا ہیے اور ہمارے اندر صرف ایک خواہش جنم لیتی ہے ..کہ کسی بهی طرح ،کسی بهی چور دروازے سے ہم وی آی پی بن جائیں ..
کیونکہ اگر آپ وی آئ پی ہیں تو آپکے راستے میں اندهے بهی آئیں تو ان پر بلا تخصیص چهترول کردی جائے گی ..
ہم اپنے سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹهے سرخ سفید دهاڑیوں والے اندهے ،بہروں ،لولے لنگڑوں کو سڑکوں پر گهسیٹے جانے کے منظر کو انجوائے کریں گے..
کیونکہ اگر آپ وی آی پی نہیں ہیں تو اپکو اس ملک میں زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں۔۔۔۔

Wednesday 3 December 2014

ٹیلی پیتھی
زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)

'' مجهے اس سے شدید محبت ہے ''
مطلب آپکو محبت کا ڈینگی ہے ..؟؟
میں نہایت نے معصوم سوال کیا ..
'' آپ مزاق اڑا رہی ہیں ..'' 
جی بلکل ..
میں نے تسلیم کیا ..
اسکی آنکهوں میں ضبط سے سرخ سرخ نمی جهلملانے لگی ..
مجهے اپنی سفاکی پے تهوڑی سی شرمندگی ہوئ ....
'' سوری '' 
میں نے خاصا دل پر جبر کر کے کہا ...
اس نے میری معزرت کو وزیرانہ نظر سے دیکها ..یعنئ حقارت سے ..
..خیر میں کا فی ڈهیٹ ہوں .
اچها تو یہ بتاو کہ تمہیں اس سے کتنی شدید محبت ہے....؟؟
میرا مطلب ہے کہ دس کلو ، بیس کلو ..یا مور دین ..؟؟
میں نے خالص دکان دارانہ طریقے سے سوال کیا 
اس نے اپنی بڑی بڑی آنکهیں پوری کی پوری میری آنکهوں میں ڈال دیں..مجهے لگا میری آنکهیں گم ہوگیئں ہیں .....
''آپکو پتا ہے مجهے اسکے ہر لمحہ کا پتہ ہوتا ہے..''.
''ہاں نا ..کمیونیکشن کے ہزاروں طریقے ہیں'' ..
مین نے پهر اسکے محبت کے باٹوں کوہلکا ثابت کرنے کی کو شش کی ..
...اسکے چہرے پر حقارت سے بهرپورمسکراہٹ تهی..
''ہمارا پچهلے چند سال سے کوئ رابطہ نہیں ہے ''..
''اچها پهر بهی تمہیں اسکا پتہ ہے کہ وہ کیسا ہے ..''
'''جی ''
اس نے ایک تکلیف دہ سانس بهری ..
''مجهے اس کے ایک ایک لمحہ کا پتہ ہے ..''
اب وہ خواب زہ لہجے میں بول رہی تهی..
'' اچها اس وقت وہ کیا کر رہا ہے .'' 
میں نے بلکل ایسے سوال کیا جیسے کرسٹل بال والی مائ سے فلموں میں کیا جاتا ہے ..
'' اس وقت اس نے ٹی شرٹ پہنی ہوئ ہے اسکے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے .پانی کے قطرے اسکی ٹی شرٹ پے بهی ہیں..'' 
اسکا خواب زدہ لہجہ اور گم شدہ وجود مجهے حیران کر رہا تها ..
وہ مکمل ٹرانس میں چلی گئ تهی 
.اس کا وجود تحلیل ہوگیا تها .صرف سرگوشی نما خودکلامی سنائ دے رہی تهی...
''وہ کسی بات پر مسکرا رہا ہے ''
اسکے اپنے چہرے پر بڑی مطمئیں مسکراہٹ تهی...
میں خود بهی اسکی آنکهوں میں اپنی آنکهیں بهول گئ تهی...اب مجهے بهی صاف دکهائ دے رہا تها....بولتی آنکهوں اور جارحانہ لہجے والا میرے بهی سامنے تها .اسکے آس پاس کیریبین سگار کی خوشبو تهی ..کڑوی سی مٹهاس والی خوشبو.. وہ بولتے ہوئے اپنی آنکهوں سے بچهو کے ڈنک کا کام لیے رہا تها ..
''مجهے اسکی آنکهوں نے ڈس لیا ہے .''
اسکی آواز میں خمار آلود ازیت تهی..
میں خاموش تهی ..
''
''وہ مجهے بہت مس کررہا ہے''
میں ہمت کر کے اس ٹرانس سے باہر آگئ..
ایسا کبهی نہیں ہوتا کہ کوئ بهی شخص یا واقعہ مجه پر اس طرح اثر انداز ہو..مجهے اپنی کمزوری پر غصہ بهی تها لیکں اس تجربے نے مجهے عجیب طریقے سے متاثر کیا تها ..
میں نے بہت تیزی سے خود پر کنٹرول کیا...
اچها چلو مان لیا تمہاری محبت سارے فاصلے مٹا کر تمہیں با خبر کر دیتی ہے ..لیکن کیا دوسری طرف بهی ایسا ہی ہوتا ہے ...
یہ سوال مین نے کیا تو اس سے تها لیکن جواب خود سے بهی مانگ رہی تهی .دل نہیں چاہ رہا تها کہ اس کا جواب نفی میں ہو ...جو جزبہ اتنا طاقتور ہوکہ جس کو چاہے محبوب کا دیدار کرادے ...ایک دهڑکتا ہوا سانس لیتا ہوا رشتہ ہوتا ہے..
ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی طرح...جو روشنی اور تابکاری ایک ساته دیتا ہے ..
اس کے ہوٹنوں پے بڑی تابکار مسکراہٹ تهی..جلتی بجهتی..مغرور سی..
'' اسکو پتہ ہے کہ میں یہاں آپ کے پاس بیٹهی ہوں ''

الم تر کیف
زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)
،اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ مستقل بوجه ڈهونے،تابعداری دکهانےاور
بندهے رہنے کے باعث وہ ان حالوں کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ما لک اسے کسی چهوٹے پتهر یا سوکهی ٹہنی س بهی بانده دے تو وہ یہی سمجهتا ہےکہ بہت مضبوطی سے بنده ہوا ہے..لاکه زور لگائےاور بلبلائےرسی نہی تڑا سکتا.،،


یوسفی صاحب کی اس بات کی تصدیق کے لئے پوری قوم کو بل عموم اور کراچی والوں کو بل خصوص پش کیا جاسکتا ہے..
ہم ایسی ہی اونٹ قوم ہیں ...ہمارے سوار تو بدل جاتے ہیں لیکن قسمت نہیں..
ہم کراچی والوں نے تو پچیس سال سے سوار اور خوف کی ڈبل سواری کا مزا چکها ہے..سوار کے چہرے بے شک بدلتے رہے ..کبهی کچه گهڑی کو سوار نے تو سستا بهی لیا لیکں خوف و دہشت پیر تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں اور پیٹ پر سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتے تهے..ہم خوف کهاتے ،.دہشت اوڑهتے اور دوسری صبح خوف کے ساته ہی بیدار ہوتے...ہر صبح ہم سورج کی طرف امید سے زیادہ تشویش سے دیکهتے....اسی خوف میں ایک نسل پیدا بهی ہوئ اور بڑی بهی ہوگئ..کراچی ایک کبڑے کی طرح اپنے دکه سے بیزار لیکن اسکو اٹهائے پهرنے پر مجبور تها..بہت سارے لوگ مسیحا بن کر اتے اور اس شہر کو اپنانے کا نعرہ مستانہ لگاتے اور گم ہوجاتے..کبڑے کا کب بدنما ہی نہیں بدبودار بهی ہوتا جا رہاتها ..ہم نے اس کو اپنا مقدر سمجه لیا تها ..
اور تها بهی ....ہمارے اندر بزدلی ہر روز انجیکٹ کی جاتی .اور ہم خوف کے نشے سےاپنی زندگیوں کو اپنی آنکهوں کے سامنے قتل ہوتے دیکهتے .جیسے یہ ہمارے نہیں کسی اور کے ساته ہورہا ہو ..
کہتے ہیں ہر ویرانہ کبهی ناکبهی شہر ہوتا ہے .....ہمارا شہر بهی ویرانہ تها ..ہم نے یہاں دہشت کو دندناتے اور زندگی کو ننگے پاوں دوڑتے دیکها ہے .ہماری آنکهوں نے چمگاڈر کی شکلوں کو اسکول کالج اور یونی ورسٹیوں میں خون پیتے دیکها ہے ..ہم نے ہر دن موت کو فاتح دیکها ہے .
ہم نے دہشت کو گهروں میں کودتے اور موت کو دستک دیتے سنا ہے ..
..لیکن خاردار جهاڑیوں کے درمیان بغاوت کا بیج بو دیا گیا ..ایک آواز جو کهوکهلی نہین تهی .جو غیرت کی آواز تهی .جو زندگی سے بهرپور تهی اسنے نئ نسل کی کان میں بغاوت کئ ازان دی ..وہ آواز صبح کے چہرے کی پہلی
کرن تهی ..ویرانے میں ازان کی طرح..ہم نے چپکے چپکے بغاوت کو پالا ..مجهے کبهی کبهی فرعون کے محل میں حضرت موسی کی پرورش یاد
آجاتی ..ہر دور کے موسی فرعونوں ہی کے محل میں اسی کے زیر سایہ ..
پروان چڑهتے ہیں ..ہماری نسل بهی ایسے ہی پروان چڑهی ..
جو لوگ کراچی سے تعلق نہیں رکهتے وہ کبهی بهی ہمارے خوف اور دکه خا اندازہ نہیں لگا سکتے ...وہ ہماری ماوں کی آنکهوں کی اس مایوسی اور خوف کا تصور نہیں کر سکتے جو ہمیں گهر سے باہر جاتا ہوا دیکهکر ہوتی تهی.بچے صحیح سلامت گهر آجائیں تو اس میں مسرت سے زیادہ حیرت ہوتی..
ہم رنگ برنگے سرخ سبز انقلابوں کی بس آیا ہی چاہتی کی بریکنگ نیوز سے متلا چکے تهے ....ایسے ہر چہرے پر کمپرومائز لکها صاف نظر آتا .جس سے ہمیں نفرت ہو چکی تهی ..
ہم نے ابابیلیں بننے کا فیصلہ کر لیا ...اپنی چونچوں میں بغاوت کی کنکریاں جمع کرتے رہے....
پچیس دسمبر ...
کراچی کی پچیس سالہ تاریخ کی سب سے باغی صبح تهی ..
خان کا کراچی میں پہلا جلسہ اور ہماری آخری امید ...ابابیلوں کے دل دهڑ دهڑ دهڑک رہے تهے...یہ اگر ناکام ہوجاتا تو ہمیں مزید پچیس سال اس منحوس خوف کو جهیلنا ہوتا ..
ہماری آزمائش ختم ہو گئ تهی ..
خوف کے بت میں پہلی دراڑ پڑ چکی تهی..
ہم اسی دن جیت گئے تهے ..ہم نے خوف کوپہلے دل سے نکالا تها .پهر شہر سے..
قوموں کی تاریخ میں لمحے صدیوں پر بهاری ہوتے ہیں .جس لمحے وہ فیصلہ کرتی ہیں وہی انکی قسمت بن جاتا ہے ..
تیس نومبر ایسا ہی دن ..
جسکو کهڑا ہونا تها وہ کهڑا ہوا ہے..
جس نے عزت سے جینے کا فیصلہ کرنا تها اس نے ثابت کر دیا ہے.
باقی قوم کا مسئلہ ہے وہ اونٹ ثابت ہوتی ہے یا غیرت مند انسان ..

Monday 10 November 2014


ماموں کی شادی
عالیہ ممتاز

چھوٹے ماموں دلہا بنے شرمارہے تھے ،پہلو میں بیٹھی مامی گھبرائی گھبرائی سی لگ رہی تھیں۔ہم بھونڈی آوازوں میں بے سرے گیت گا رہے تھے مگر لوگ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔اس تقریب عجیب وسعیدمیں صرف ماموں اور نئی نسل ہی خوش تھے ،خاندان بھر کی بوڑھی سہاگنوں نے اپنے بوڑھے سہاگوں کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ،بوڑھے سہاگ سلیف کانفیڈنس کی انتہاوں پہ تھے ،سہاگنوں کا رنگ تھا کہ اڑا جارہا تھا۔
ماموں کی شادی ایسا ہی واقعہ تھی کہ خاندان بھر نے پہلے حیرت پھر صدمے سے یہ خبر سنی ۔یہ نہ تو کم عمری کا فیصلہ تھی نہ ناتجربہ کاری کی لو میرج ۔
ماموں ماشاللہ نانا دادا بن چکے تھے ،ہماری پہلی مامی کینسر کا شکار ہو کر اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں ۔ماموں کو ان سے شدید محبت تھی ،اتنی شدید کہ سب کو یقین تھا کہ اگر مامی کو کچھ ہوا تو ماموں بھی جان دیدیں گے ۔ماموں نے ساری عمر مامی کوسر آنکھوں پے رکھاتھا۔خاندان بھر میں وہ زن مرید مشہور تھے ۔خلق خدا غائبانہ ہی نہیں منہ پہ بھی یہی کہتی تھی لیکن ماموں کے جذبہ محبت میں کوئی کمی نا آئی بلکہ یہ محبت تو پرانی شراب تھی،گہری اور نشہ آور ۔ہم تو ہمیشہ کے منہ پھٹ اور بد تمیز تھے اس لیے اکثر منہ کھول کر کہہ دیا کرتے کہ ماموں جیسی خدمت آپ مامی کی کرتے ہیں ایسی ماں باپ کی کی ہوتی تو آپ پہ جنت واجب ہوجاتی ،لیکن ماموں ہمیں برا بھلا کہہ کر نئی انرجی کے ساتھ مامی کی خدمت میں جت جاتے ،وہ مامی کے ماتھے کی شکن اپنے دل پہ ڈال لیا کرتے تھے ،ویسے بھی مامی بڑی نیک صفت عورت تھیں ۔انکی ذات سے کم ہی کسی کو تکلیف پہنچی تھی ۔
ایک دن یہ اندوہناک خبر ملی کہ مامی کو آ نتوں کا کینسر ہوگیا ہے جو بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ہائے دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ماموں کو تو جیسے کسی نے کھڑے کھڑے پھانسی کا حکم سنا دیا ہو۔ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنی جان نکال کے مامی میں ڈال دیں۔ہم سب انکی ذہنی حالت سمجھتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ مامی سحت یاب ہو جائیں ۔سچ ہے ماموں خدمت کا حق ادا کر رہے تھے ۔یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے بہت ساری صحت مند بیویوں کے بڑے بے زار شوہر دیکھیے ہیں ،لیکن ماموں مامی کے مزاج کی تلخی کو بھی بڑی خوشدلی سے برداشت کر رہے تھے ۔ ادھر گھریلوامور بری طرح متاثر ہورہے تھے۔سچ ہے کہ بندہ موت سے توایک ہی بار مرتا ہے لیکن بے اعتنائی اور بے حسی انسان کوبار بار مارتی ہے ۔مامی کی بیماری جیسے جیسے بڑھتی جارہی تھی،ارد گرد کے لوگوں کی بے زاری بڑھتی جارہی تھی۔شائد یہ بھی کینسر کی کوئی قسم ہو ،لا علاج اور تکلیف دہ ۔۔
ٓآدمی ہر رشتے کی سرد مہری برداشت کر سکتا ہے لیکن شاید اولاد کی نہیں ۔اس کویقین ہی نہیں آتا کہ جس کو اس نے راتوں کو جاگ جاگ کر کر پالا ہے آج ان کے دن کا کوئی پہربھی اس کے لئے نہیں ہے ۔۔مال اور اولاد بڑی آزمائش ہیں ، اللہ کے اس فرمان پہ یقین بھی اس وقت آتا ہے جب بے یقینی بڑھنے لگتی ہے جس خود غرضی سے اس نے دوسروں کے نوالے چھین کر اپنی اولاد کے منہ میں ڈالے ہوتے ہیں آج انکو ہی ماں باپ کی بھوک نظر نہیںآتی ۔بے شک موت سارے پردے اٹھادیتی ہے ۔مامی نے ایک ایک کر کے سارے پردے اٹھتے ہوئے دیکھے تھے ۔بہن بھائیوں اور اولاد کی خود غرضی نے انکے موت کی طرف بھاگتے قدم اور تیز کر دئیے ۔ایسا لگتا تھا جیسے انھوں نے جان بوجھ کر زندگی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہوں ۔جیسے زندگی اپنی تمام تر سفاکی اور گھناونے پن کے ساتھ انکے سامنے برہنہ ہوگئی ہواور پھر ایک صبح نیک صفت ،باحیامامی نے آنکھیں بند کرلیں ۔
بڑا ہی سخت دن تھا ۔اتنا سخت کے کہ مجھے لگا کہ اسکو کاٹنے کی کوشش میں میرے ہاتھ زخمی ہو جائیں گے۔تو یہ ہے وہ زندگی ؟میں ایک کونے میں خشک آنکھوں اور سخت دل کے ساتھ بیٹھی سوچ رہی تھی ۔کتنی بھرپور تھی اس عورت کی زندگی ،بے انتہا محبت کرنے والا شوہر ،لوگ بھلے ہی زن مرید کہیں ایک عورت کے لیئے اسکا سب سے بڑا فخر اسکا شوھر ہی ہوتا ہے ۔ایسا شوہر جس نے اعلی عہدے اور بے انتہا ء خوبصورت ہونے کے باوجود کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہو۔بیٹے ،بیٹیاں سب کس قدر غمگین ہیں ۔کسی کے معمولات میں کسی ردوبدل کی گنجائش نہیں ۔کیا کریں ،سب کی اپنی زندگی ہے ۔اب کیا کوئی جینا چھوڑ دے ۔میرا دل چاہا سب سے کہوں ،کسی لمحے ،کسی پہر ،چلو سال میں ایک دفعہ ہی سہی جینا چھوڑدو ،پھر دیکھو کیسے کیسے تماشے ہوتے ہیں ۔کیسی کیسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں ۔مامی نے بھی بہت پہلے جینا چھوڑ دیا تھا ۔کفن تو ہم نے بعد میں پہنایا ۔قبر میں بعد میں اتارا ۔انہوں نے وقت نہیں چہرے بدلتے دیکھے تھے ۔یہ اجنبی چہرے ،اجنبی رشتے ان سے برداشت نہیں ہو رہے تھے ۔میں انکی آنکھوں میں دیکھتی تو ایسا لگتا جیسے وہ چیخنا چاہتی ہوں ۔انکی آواز گھٹ گئی تھی لیکن مجھے پتا تھا کہ و ہ ان سارے چہروں کو گھر سے نکالنا چاہتی ہیں ۔یہ اجنبی چہرے انہیں چہرے نہیں دیواریں لگتیں ۔ٹھنڈی اور سپاٹ ،جن پر موٹے حروف سے لکھا ہوتا ،بس کرو کتنا جیو گی؟وہ گھبرا کے ماموں کا ہاتھ پکڑلیتیں ۔اتنے اجنبی چہروں میں وہی ایک شناسا چہرہ تھا ۔جو اس حال میں بھی اجنبی نہیں ہوا تھا،آج سارے اجنبی انکے لئے رو رہے تھے ،چیخ رہے تھے ،انکا راستہ روک رہے تھے ،پتہ نہیں غم تھا یا شر مندگی ؟
ماموں کی حالت پاگلوں والی ہوگئی تھی جس پہ سب بہت مطمئن تھے ۔ایسے محبت کرنے والے شوہر کا ایسا ہی حال ہونا چاہیے ۔ماموں روتے تھے یا عبادت کرتے تھے ۔
حسب دستور سب ہی اس حال پہ پہلے افسوس ،دوسرے مہینے مذاق اڑاتے اور تیسرے مہینے مشورے دینے لگے ۔ہم سب بھی اس غم سے باہر آچکے تھے۔زندگی اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے ۔کبھی ہاتھ پکڑ کر کبھی دامن پکڑ کر ،کوئی کب تک اس سے بے رخی برتے ،؟سوائے معدودے چندلو گوں کے ۔جو حیات فانی اور حیات جاوداں کو بیک وقت دیکھتے ہیں ،شائد اسی لئے وہ بڑ ے سبک ،بڑے سہل ہو کر دوسری زندگی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں ۔زندگی سے انکی ترجیحات اور مطالبات ختم ہو جاتے ہیں اسلئے وہ بڑے منصف بڑے عادل ہو جاتے ہیں ۔ہم کم بختوں کے نصیب میں کہاں یہ سب ۔۔
ایسے میں ایک بوڑھا تنہا شخص کس کو نظر آتا ؟
ماموں گھبرا گھبرا کے کبھی ایک تو کبھی دوسرے کے گھر چلے جاتے ،یا پھر رشتہ داروں سے فون پہ لمبی لمبی باتیں کرتے ۔آہستہ آہستہ سب بے زارہوتے گئے ۔کوئی کہاں تک قصہ غم سنے اور سننے کو تھا ہی کیا ؟ایک تکلیف دہ بیماری ،جس کی جزئیات تک ماموں کی زبانی سب سن چکے تھے ۔مامی کی آنتوں میں پھیلنے والا کینسر ،ماموں کے دل تک پہنچ گیا تھا ۔مامی آہستہ آہستہ چھوڑ کر گئی تھیں ،جس پر سب سے آخر میں خود ماموں کو یقین آیا تھا،باقی سب توکتبہ بھی لگا چکے تھے ۔
مجھے ماموں پہ بڑا ترس آتا ،کم عمری کی شادی تھی ،آج کل کی میچورڈ شادی تو تھی نہیں ،ایک عمر گذاری تھی ماموں نے مامی کے ساتھ۔ماموں کو خدمت کی عادت تھی نا اب کرنے کو کچھ نہیں ہے تو ماموں بور ہو رہے ہیں ،ہم تھوڑا پریکٹکل ہو کر سوچتے ، ۔۔ارے ماموں آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے،اچانک جب ہمارے دل کا بوجھ بہت بڑھ گیا تو جیسے اللہ نے ہم سے کہلوایا۔ہم نے کہنے کو تو کہہ دیا لیکن آنکھیں بند کرلیں ۔ایک خوفناک چیخ کا انتظار کرنے لگے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو آنکھیں کھول دیں ۔ماموں کے چہرے پہ ڈری ڈری خوشی تھی ۔لوگ کیا کہیں گے ؟
ارے ماموں بھاڑ میں جائیں لوگ ۔کس کو آپکی ضرورت ہے؟کس کے پاس آپکے لئے وقت ہے؟،،
ہم نے ماموں کو حوصلہ دیا۔
کیا ضرورت ہے ،؟سب سے بڑا اعتراض !
بچے ہیں ۔بچوں کو دیکھیں ۔’’ انکو دیکھنے کے بعد بھی کافی ٹائم بچ جاتا ہے ۔‘‘ماموں ہمارے سکھائے جوابات دہراتے ۔’’اور بچے بھی ماشاللہ بچوں والے ہیں ۔جن کے پاس باپ کے لئے وقت نہیں ہے ‘‘۔ ہم بھی ماموں کی ڈھال بن جاتے ۔
ہمیں تو پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ بڑا ہی غم پسند معاشرہ ہے ۔ہمیں غمگین چہرے دیکھ کر بڑی ہی تسلی ہوتی ہے ۔ہمیں ہر خوش باش بندے سے امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ہی کوئی بری خبر سنائے گا۔ماموں کو بھی ایسے ہی دکھی لوگوں نے گھیر لیا تھا ۔بچوں کو اچانک ہی اپنی ماں شدت سے یاد آنے لگی ۔لوگ ماموں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے تھے ۔لوگ ہی لوگوں کا خوف دلانے لگے ۔بیٹیوں کو سسرال اور بیٹوں کو جائداد کی فکر ستانے لگی ۔فکر نہیں تھی تو بس ایک بوڑھے ،تنہائی کا شکار شخص کی ،جو تنہائی کا زہر گھونٹ گھونٹ پی رہا تھا ۔
خیر آہستہ آہستہ محبت کی ماری بہنیں اور ایکسائتمنٹ کی شوقین نئی نسل انکے ساتھ ہو گئی۔ماموں کے لئے مامی کی تلاش میں نکلے تو بڑی خوفناک حقیقتیں سامنے آئیں ۔ہم تو ایک ماموں کو رو رہے تھے یہاں ہر گھر میں ایسے عظیم لوگ موجود تھے،،کسی نے بچوں کی خاطر ،کسی نے بھائی بہنوں کی خاطر خوشیوں سے منہ موڑا ہوا تھا ۔جن کی خاطر یہ سب کیا تھا وہ اب خاطر میں نہیں لاتے تھے۔کوئی ضرورت نہیں کا طغرہ بنا کر دیوار سے لگادیا جاتا ہے ،حلانکہ اسی عمر میں تو سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔جوانی تولڑتے جھگڑتے ،جدوجہد کرتے ،بچوں کو بڑا کرتے گذر جاتی ہے ۔اس عمر میں جب کوئی لڑنے والا بھی نہ ہوتوصرف سانس کی آواز سنائی دیتی ہے اور اس سے بھی خوف آنے لگتا ہے ۔ہم کیسی ظالم قوم ہیں صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے ایسی ساری جیتی جاگتی روحوں کو تساؤ کے مجسموں کی طرح ایستادہ کر دیتے ہیں ،ہاتھوں میں تسبیح پکڑا کر ،مصلے پے بٹھا کر خوش ہوتے ہیں ۔
لیکن ماموں ڈٹ گئے ،ہر معاملے پہ سمجھوتہ کرنے والے ماموں تنہائی پہ سمجھوتہ نہ کر سکے ۔
اور آج ماموں کی شادی تھی ۔

Monday 13 October 2014


ننھا شہزادہ
زیتون بی بی
ٓآپ کے پاس ’’ننھا شہزادہ ‘‘ہے؟‘
یہ شہر کی پانچویں مارکیٹ اور کوئی بیسویں دکان تھی ،اور مجھے یہاں بھی ما یوسی کا سامنا تھا،
اکثر دکان داروں کی آنکھوں میں تمسخر ہوتا ،جیسے کہہ رہے ہوں بی بی اس عمر میں ننھے نہیں بڑے شہزادے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔لیکن مجھے اس کتاب سے عشق تھا ، یہ مجھ سے گم ہو چکی تھی ۔عشق ہی کی طرح ،پھروہ عشق ہی کیا جو پاگل نہ کردے ،رسواء نہ کرے؟بس میں بھی اس پاگل پن اور رسوائی کو جھیل رہی تھی۔
یہ ایک فرنچ مصنف کا شہکار تھی ۔کچھ چیزیں بڑی عجیب ہوتی ہیں ،لکھوالی جاتی ہیں ،صحرا میں اگنے والے کیکٹس کی طرح ،زمین کے سینے سے نمی حاصل کر کے اور سورج کی سخت مزاجی برداشت کر کے ،، انکے وجود پے کانٹے ضرور ہوتے ہیں لیکن اندر ٹھنڈا میٹھا رس بھرا ہوتا ہے ۔۔
میں ہر دفعہ اسکونم آنکھوں کے ساتھ پڑھتی اورمقدس کتابوں کی طرح چوم کے رکھ دیتی۔ القائی چیزیں دنیا میں کہیں بھی ظہور میں آسکتی ہیں ۔ بس وہ بھی مجھے ایسا ہی سکون دیتی ۔
پھر ہر قیمتی چیز کی طرح وہ بھی مجھ سے گم ہو گئی شریر بچوں کی طرح ،جو اچانک ہی سڑک پہ ہاتھ چھڑا کے بھاگ جائیں ،اور ٹریفک کا شور آپکو حواس باختہ کردے۔
بس میں بھی ایسی ہی حالت میں تھی ،ایک ایسی ماں کی طرح جو ہرایک سے پوچھتی پھرتی ہے کہ آپ نے میرے بچے کودیکھا ہے؟اس نے اس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟اور لوگوں کے انکار سے ہلتے ہوئے سر بھی اسکو تلاش سے نہیں روک سکتی اور وہ نئی ہمت سے تلاش میں مصروف ہو جاتی ہے۔
بس میں بھی ایسی باؤلی ماں تھی۔


کچھ دکھ بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ان سے باہر آنے کے لئے آپکو خود ہی اپناہاتھ پکڑنا ہوتا ہے ،ورنہ آپ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں ،بڑا عجیب وقت ہوتا ہے ۔آپکی ذات جگسا پزل بن جاتی ہے ،بظاہر مکمل ،جڑی ہوئی لیکن ہرٹکڑا دوسرے کی نفی کرتا ہوا ،جگر لخت لخت کو جمع کرناشائد اتنا مشکل نہ ہوتا ہو ،شائد رفو گری میں ہم رنگی کی آسانی بھی شامل ہوجاتی ہو ۔بس ایسے ہی دن تھے جب لفظ گونگے ہو گئے تھے اور خامشی وحشت ناک ۔سارا وقت ذات کی کرچیاں جوڑتے انگلیاں زخمی کرتے گزر جاتا۔خالی خالی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا پڑے تو دنیا بھی بلکل خالی لگتی ہے ،رنگ تو آنکھ میں ہوتے ہیں ۔
بس ایسے ہی دن تھے ۔بے اعتبارے سے ،بھونڈے اور سخت،ایسے دنوں کی خاص بات ہوتی ہے،کے آپکے منہ کا ذائقہ تک تبدیل ہوجاتاہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹشو پیپر کھارہے ہوں ۔
زندگی کا سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب آپکو خود اپنی ذات کھوجنا ہوتا ہے،جو کہیں ڈرکر چھپ کر کسی کونے میں اپنے ہی بازووں میں منہ چھپا کے بیٹھی ہوتی ہے ۔
ایسے میں مجھے یہ کتاب اور بھی شدت سے یاد آتی۔
کھالہ۔۔۔ کوئی میرا دامن پکڑ کے کھینچ رہا تھا۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو ’’ ننھا شہزادہ ‘‘ کتاب سے باہر آکے کھڑا تھا ۔میرا دامن پکڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے ، ڈھیر سارے گھنگھریالے بال ،چمکتی آنکھوں اور معصوم صورت والا ننھا شہزادہ !
یہ ہماری محمد سے پہلی ملاقات تھی ۔ہمارے پڑوسیوں کا پیارا سا بچہ۔۔ فقط دو سال کا !
اس کے والدین،سائبر والدین تھے ۔سکائپ اور ٹینگو والے !مس یو ،کس یو والے! ماں مڈیسن کی تعلیم کے لئے اور باپ بزنس کے لئے الگ الگ دنیاؤں میں مقیم تھے ۔انکے اور محمد کے بیچ ہمیشہ ایک سکرین کا فاصلہ رہتا ۔ویل کنکٹڈ،لیس کنسرن والی مجبوریاں۔۔ محمد اپنی دادی کے پاس رہتا تھا ۔دادی بس ماں تھیں ۔ماں ،جسکے لئے ماں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔عورتوں کی بس دو ہی قسمیں ہوتی ہیں۔
ایک وہ جو ماں ہوتی ہیں، دوسری جو صرف عورت ہوتی ہیں ۔ماں ہونے کیلئے ماں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔کچھ عورتیں اولاد رکھنے کے باوجود ماں نہیں صرف عورت ہوتی ہیں ،اپنی ذات کے گرد گھومنے والی ،اپنے بارے میں سوچنے والی ۔عورت جب تک ماں بن کر سوچتی ہے کامیاب رہتی ہے ۔بلند ہو جاتی ہے ۔اسکا کنکشن براہ راست خالق سے جڑ جاتا ہے لیکن عورت بنتے ہی وہ معمولی سی مخلوق بن جاتی ہے ۔عام سی لیونگ تھنگ،پھر وہ معتبر نہیں رہتی ۔اسکی آنکھیں صرف اپنا عکس دیکھتی ہیں ۔اسکی ذات کل سے جز کیطرف چل پڑتی ہے جیسے نیوکلیس سے نکلا ہوا بے کشش الیکٹران ۔
دادی، ماں تھیں۔ خالص ماں ۔وہ محمد کو محبت کھلاتیں،محبت پہناتیں اور محبت کے کمبل میں لپیٹ کر سلاتیں ۔بچوں کی بنیادی ضرورت ۔اسکے بعد باقی ہر چیز کی حیثیت ثانوی ہوتی ۔محبت سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور دادی ہر لمحہ اس میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔
میں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ۔کسی بادشا ہ کے محل میں ایک جادوگر آجاتا ہے ۔اسکو بادشاہ کی ہیپی فیملی سے بڑی نفرت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ خود اس سے محروم ہوتا ہے ۔وہ بادشاہ کی فیملی کا حصہ بننے کی خواہش کرتا ہے ۔بادشاہ کو محسوس ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ محبت سے محرومی نے اسکے اندر محبت کی وہ پاسداری ختم کردی ہے جہاں محبت محفوظ ہوتی ہے ۔بادشاہ انکار کردیتا ہے ۔جادوگر کو بہت غصہ آجاتا ہے ۔اسکو اپنی ہتک محسوس ہوتی ہے اور وہ جھنجھلا کے کہتا ہے کہ سزا کے طور پے وہ سب کو ہمیشہ کے لئے پتھر بنا دے گا ۔بادشاہ بوڑھا اور کمزور ہوتا ہے ،جادوگر کا مقابلہ کرنے کی اس طاقت نہیں ہوتی ۔وہ جادوگر سے درخواست کرتا ہے کہ سزا میں تخفیف کردی جائے ۔شاید جادوگر کے دل میں کہیں محبت کی قدر موجود ہوتی ہے ۔لہذاہ وہ کہتا ہے کہ جب ایک ایسا شہزادہ آئے جسکے پاس آب محبت ہو وہ جب ان پتھروں پے ڈالے گا تو تم سب جی اٹھو گے ۔محل کے مکین پتھر کے بن جاتے ہیں اور شہزادے کے انتظار میں صدیاں گذر جاتی ہیں ۔ایسا نہیں تھا کہ اس دوران کوئی وہاں سے گذرا ہی نہیں تھا لیکن یا تو کوئی خالی ہاتھ ہوتا یا اتنا کور چشم کے اسکو پتھروں میں چھپے انسان ہی دکھائی نہیں دیتے لہذاہ محل کے مکینوں کا انتظار طویل ہوتا گیا۔پھر ایک روز وہ شہزادہ آہی گیا۔اسکی آنکھوں نے مٹی میں لپٹے ہوئے پتھریلی آنکھوں میں جی اٹھنے کا انتظار کرتے لوگوں کو پہچان لیا۔اسکی ہمت نے آب محبت کا حصول ممکن بنادیا ۔کسی کو زندگی دینے کی ہمت محبت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ محبت شہزادے کا سب سے مضبوط ہتھیار تھی لہذاہ شہزادہ جیت گیا ۔پتھر کے لوگ جی اٹھے ۔
میں نے زندگی میں نفرت کا زہر رکھنے والے ،جیتے جاگتے انسانوں کو پتھر بنا دینے والے جادوگروں کو چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ا ن کا کومپلیکس ہر خوبصورتی کو پتھرا دیتا ہے ۔جیتی جاگتی تتلیوں کے یا تو پر نوچ لیتا ہے یا انہیں حنوط کر دیتا ہے ۔آب محبت لانے والے شہزادے کم ہمت ہوگئے ہیں ۔۔لہذاہ شہر میں پتھر کے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ،جی اٹھنے کے انتظار میں جینے والے لوگ۔۔
محمد ایسا ہی شہزادہ تھا ۔محبت کے ہتھیار سے لیس ۔اس نے اپنے تتلیوں جیسے لمس کو میرے وجود سے چھوا تو اسکے سارے رنگ میرے اندر ہولی کھیلنے لگے ۔وہ آتا تو اپنے جادو کے زور سے مجھے اپنی عمرکا بنالیتا ۔اسکے ہاتھ میں پینسل ہوتی اور میرے کمرے کی قیمتی دیواریں دنیا کی سب سے بہترین آرٹ گیلری بن جاتیں ۔ایک ایک لکیر میں پوری پوری داستا ن چھپی ہوتی۔بدصورت بلی اپنے لمبے پنجوں کے ساتھ ہم پے حملہ آور ہوتی تو ہم اتنا ڈر جاتے کے کمبل میں چھپ کر اسکے جانے کا انتظار کرتے ،بے ہودہ سے اونٹ کی تصویر جو صرف چند لکیروں پے مشتمل ہوتی اتنی جان دار ہوتی کہ ہم اس پے بیٹھ کر سمندر کی سیر کا لطف لیتے ۔ہم غبارے پھلاتے ،بلبلے بناتے انکے پیچھے بھاگتے ،کوک کی پرانی بوتل سے گھنٹوں فٹبال کھیلتے اور کمبل میں چھپ کر اندیکھی چڑیلوں سے ڈرتے ،جن کا واحد مقصد محمد کو چھین کر لے جانا ہوتا ،شائد ہم دونوں کے لاشعور میں اس لمحے کا خوف تھا ۔ایٹونی ڈی سینٹ اکزیوپرے’’ ننھا شہزادہ‘‘ میں کہتا ہے کہ آپ کسی بڑے سے کہیں کہ آپ نے لال اینٹوں والا گھر دیکھا ہے ،جس کی دیواروں پے جرمینیم کے پھول لگے ہین تو وہ کبھی آپ کی بات کا نوٹس نہیں لیں گے ،ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ گھر کی قیمت ۱۰ ہزار ڈالر ہے تو وہ کہیں گے واہ کیا خوبصورت گھر ہے ۔
بچے کی آنکھ ہی خوبصورتی کی پہچان کرسکتی ہے۔ہم سب اس آنکھ کو کیلکیولیٹر میں بدل دیتے ہیں ۔ناپ تول ،حساب کتاب ،بس ہماری زندگیاں اعداد کے گرد ہی گھومتی ہیں ۔۔اتنے کی محبت ،اتنے کے رشتے ،اتنے کا بھروسہ ۔۔۔۔اتنے اتنے اتنے۔۔
محمد نے میری آنکھوں کو بچے کی آنکھ بنا دیا تھا ،معصوم پانی سے بھری ہوئی ۔۔ہم ٹییرس سے نیچے منہ ڈالکر تھوکتے ،کسی گذرنے والے پے تھوک پڑجاتا تو ہمین بڑی کمینی سی خوشی ملتی ،ہنس ہنس کے ہم پاگل ہو جاتے ،کاغذکے جہاز بنا کر اسکو کبوتروں اور چیلوں سے مقابلہ کرواتے ، اس سارے پراسس سے ہم اتنا تھک جاتے کے اداس ہونے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔محمد اپنے گھر جاتے ہوئے کہتا’’ٹاٹوش‘‘ اس ’’ٹاٹوش‘‘ میں اس وقت گھر جانے کی مجبوری اور اگلے دن آنے کا وعدہ بھی ہوتا ۔
،، میرے ساتھ کھیلو ،، ننھے شہزادے نے لومڑی سے کہا،
میں بہت اداس ہوں ،،
معاف کرنا میں تمھارے ساتھ نہیں کھیل سکتی ،،لومڑی نے جواب دیا،،
کیوں تم میرے ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتیں ،؟ننھے شہزادے نے پوچھا ۔۔
کیوں کہ میں ’’مانوس‘‘نہیں ہوں ،لومڑی نے جواب دیا،
یہ مانوس کیا ہوتا ہے ؟ننھے شہزادے نے پوچھا ۔۔
اسکا مطلب ہوتا ہے ،رشتے کے ساتھ جڑنا،،
رشتے کے ساتھ جڑنا کیا ہوتا ہے،؟ننھے شہزادے نے پوچھا۔۔
دیکھو،تم میرے لئے صرف ایک ننھے لڑکے ہو ،باقی سارے عام سے لوگوں کی طرح ،میں بھی تمھارے لئے ایک عام سی لومڑی ہوں ،ہزاروں عام سی لومڑیوں کی طرح ،لیکن اگر تم مجھ سے مانوس ہو جاوگے تو میں تمھارے لئے خاص ہو جاؤں گی ،اور تم میرے لئے ،اور پھر میرے لئے ہر چیز بدل جائے گی ،ہرروز طلوع ہونے والا سورج میرے لئے نیا ہو جائے گا،میں تمھارے قدموں کی چاپ کا انتظار کروں گی ،
تمھاری آوازمجھے بھونروں کے درمیان موسیقی جیسی محسوس ہوگی۔ابھی تمھیں گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا ،لیکن جب تم مجھے پال کروگے تو تمہیں گندم کے کھیت کے رنگوں سے میرے بالوں کا رنگ یاد آئے گا ۔
بس محمد کومیں نے اور محمد نے مجھے ’’پال ‘‘لیا ،اب ہمارے درمیا ن د ل کے رابطے استوار ہو چکے تھے ،محمد اپنے گھر سے چلتا تو اسکے قدموں کی چاپ دل پے پڑتی،وہ آتا تو ہم بے تکے کھیلوں میں لگ جاتے ،بے تحاشہ چیخیں مارتے ،شائد اپنے اندر کی خاموشی کو توڑتے ،
پھر امی لندن سے واپس آگئیں ،نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے بچوں کو دیکھ دیکھ کرانکی آنکھیں البائنو ہو گئی تھیں ،انہیں یہ کالی آنکھوں اور کالے بالو ں والا بچہ کچھ زیا دہ نہیں بھایا تھا اور پھر وہ انکی ڈومین پے قابض بھی ہوگیا تھا ۔جہاں انکا حکم چلتاتھا اب اس نظام کا ریموٹ ایک چھوٹے سے بچے کے ہاتھ میں آگیا تھا ۔
پھر اچانک ایک دن محمد کی ماں آگئی ۔لمبے سیاہ بالوں والی پاکستانی ۔اسکی میڈیسن کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور بچوں کے پالنے کا مشکل وقت بھی ۔اب محمد اسکول جانے کی عمر کا ہوگیا تھااور محبت اسکی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ لگنے لگی تھی ۔اسکی ماں ایک ’’بڑی ‘‘عورت تھی اپنی ذات کا بھی حساب کتاب رکھنے والی عورت ،کیلکیولیٹر آنکھوں والی عورت ، اسکے کیلکیولیٹر نے حساب کرکے بتایا کے اب محمد نام کی پراپرٹی کی پاور آف اٹارنی لینے کا وقت آگیا ہے ۔
خوشی کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں آنسووں میں ڈھل گئیں ،خاموشی سے ۔۔
آج محمد ناروے جا رہا تھا ۔۔
’’ننھے شہزادے ،ٹاٹوش‘‘

Monday 22 September 2014

شہد کی مکھی


شہد کی مکھی

زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)


وہ میری زندگی میں مکھی کی طرح آئی تھی ،،بھن بھن کرتی مکھی کی طر ح ۔۔کسی لڑکی کو مکھی سے تشبیہ دینا غیر شاعرانہ بات ہے۔لیکن کوئی کوئی مکھی ہو تی ہے نا جو آپ کو زچ کر کے رکھ دیتی ہے۔۔کبھی ناک پہ کبھی کان پہ،کبھی گردن پہ بیٹھ کے آپ کی رٹ کو چیلنج کرتی ہے،،ہر دفعہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا نشانہ پکا ہے ۔۔لیکن دوسرے ہی لمحے آپ اپنی گردن ،اپنا گال سہلا رہے ہو تے ہیں۔۔اور وہ کہیں قریب ہی بھن بھن کررہی ہوتی ہے۔ ۔لا تعلق سی۔ وہ ہر صبح میری زندگی میں داخل ہوتی ۔اور میرے گرد بھن بھن کرتی گھومتی رہتی۔۔کبھی ٹیبل پے چڑھ کے ٹانگیں ہلاتی ،تو کبھی کرسی کے ہتھے سے ٹک جاتی ،کبھی میں اسکو بری طر ڈانٹ دیتا تو کمرے میں کافی دیر تک بڑی منحوس سی خامشی چھا جاتی ۔۔لیکن اسکی فطرت میں قرار نہیں تھا ۔پھر سے اسکی بھن بھن شروع ہوجاتی ۔۔تمھارے سر میں درد ہے نا؟ وہ بڑی معصومیت سے پوچھتی۔اسوقت میرا سر واقعی درد سے پھٹ رہا ہوتا۔تمہیں کیسے پتا؟خیر پتا تو مجھے بہت کچھ ہے ۔۔وہ اس لمحے بہت پر اسرار ہو جاتی ۔اسکی انکھوں میں پندرہویں کے چاند کی اداسیاں تیرنے لگتیں۔۔اسکا سحر
انگیز لہجہ میرے سر میں کیل ٹھونک کے مجھے چڑیا بنا دیتا ۔۔میں اسکے کاندھے پہ پھدکنے لگتا ۔۔لیکن یہ لمحات عارضی ہوتے ۔اسکے چہرے سے شرارت پسینے کی طرح پھوٹنے لگتی،اور میں اسی جھنجھلا ہٹ میں مبتلاہوجاتاجوبھن بھن مکھی کی وجہ سے ہوتی ہے ،وہ ہر لمحہ اپنا رنگ بدلیتی ۔کسی سنجیدہ موضع پر اسکی گرفت بڑی سخت ہوتی،مطالعہ اتنا وسیع ہوتا کہ مجھے اپنی کم علمی کا شد ت سیااحساس ہوتا۔۔ تھک ہار کر مجھے اس سے محبت ہو گئی۔ہتھیار ڈالنے والی محبت ۔۔میرا دل چاہتا اس مکھی کو چھوٹی سی ڈبیامیں بند کر کے اپنی کوٹ کی جیب میں رکھ لوں۔
پھر ایک دن اس نے چھوٹی چھوٹی کچھ نظمیں میرے سامنے رکھیں۔۔محبت میں ڈوبی ہوئی نظمیں۔شہد کے چھتے کی طرح اسکے لفظ لفظ سے رس ٹپک رہا تھا۔چہرے پے وہی جھجھک تھی جوکسی کمسن لڑکی کے چہرے پے پہلی بار لپ اسٹک لگانے پے آتی ہے ۔یہ تم نے میری لیئے لکھی ہے نا؟میرے لہجے محبت سے مدہوش ہو رہا تھا۔نہیں تو۔۔یہ تواکثر فجر کے بعد آمد ہوتی ہے۔اس نے گویاڈھٹائی سے ہتھیلی کی پشت سے لپ اسٹک صاف کی ۔۔میری محبت کے غباروں کو وہ ایسے ہی سوئیاں چبھو چبھو کے پھاڑتی رہتی۔۔
کبھی کبھی ایسا لگتا جیسے اس پر میری محبت کا اثر ہو رہا ہے ۔اسکی آنکھیں میرے لہجے کی طرح نشیلی ہوجاتیں۔میرے دل کو جیسے قرار آنے لگتا۔۔میں بہت محبت سے اسکا ہاتھ تھام کے پوچھتا تم کیا سوچتی ہو؟میں سوچتی ہوں کہ کاش میں چائے کے کھیتوں میں کام کرسکتی۔کتنا خوبصورت لگتا ہے نا؟میرا دل چاہا اسکے منہ پہ اتنی زور سے ماروں کہ اس کا منہ سوج جائے۔لیکن ا س کی شکل پہ اتنی لاتعلقی ہوتی کہ مجھے اپنے الفاظ بالکل بے معنی لگتے۔یکطرفہ محبت بڑی تکلیف دہ چیز ہوتی ہے ۔انسان یقین اور بے یقینی کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔عجیب سے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔محبت میں بے یقینی کا دکھ شائد بچھڑ جانے کے دکھ سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔اکیلے رونے کا دکھ ،آنکھ کھل جانے کاخوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ خود ترسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ کیفیت دھیرے دھیرے جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہے۔میں ہر روز اس کیفیت سے گزرتا۔ہر روز جینے اور مرنے کی اذیت ہوتی۔۔جس نے رفتہ رفتہ مجھے بہت خاموش کردیا تھا۔میرے اعصاب شکستہ ہو چکے تھے ۔کیونکہ وہ خود تو شہد کی مکھی کی طرح سارا دن کسی نہ کسی طرح مصروف ہوتی۔کبھی ملکہ مکھی کی طرح بیٹھی صرف ٹانگیں ہلا رہی ہوتی ۔اور کبھی کارکن مکھی کی طرح کاموں میں جٹی رہتی۔اسکو میری کیفیت کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔
سنو تم لکڑہارے بن سکتے ہو ؟اس نے ایک دن بڑے ہی خوبصورت لہجے میں فرمائش کی ۔۔لہجہ جتنا خوبصورت تھا فرمائش اتنی ہی بے ہودہ۔لیکن اسکالہجہ امید کی وہ ننھی کونپل تھا جو بڑی سخت راتوں اور کڑی دھوپ کے بعدزمین پھاڑکر باہر آئی تھی ۔
کیوں پوچھ رہی ہو؟میں اپنے لہجے کی خوشی کہ بڑی مشکل سے چھپایا۔بس میرا دل چاہتا ہے کہ میرا جنگل میں ایک گھر ہو۔میرا شوہر لکڑیاں کاٹ کر لائے اور میں اس پہ کھانا پکاؤں۔۔
اسکی آنکھوں کے جگنو جنگلوں میں راستہ بنا رہے تھے۔
واقعی تم چاہتی ہو کہ ہمارا ایسا گھر ہو۔؟میرا دل جسم سب رقص میں تھے ۔
نہیں میں تو سوچ رہی تھی کہ کوئی اتنا بھی بیوقوف ہو سکتا ہے ؟کہ میری یہ خواہش بھی پوری کردے۔۔اسکے لہجے کی شوخی نے تازہ تازہ سر اٹھانے والی کونپل پے تیزاب ڈال دیا۔۔
وہ پھر سے شہد جمع کرنے میں مشغول ہو گئی ۔۔ہر خانے میں برابر ،ناکم نا زیادہ،
لیکن اس دن میں بہت مایوس ہوا تھا ،پتہ نہیں کیوں میں اکیلا ہو گیا تھا،سب کے بیچ،کونپل مر جاتی ہے لیکن بیج میں دوبارہ نہیں جاسکتی،میں بھی اسکی محبت سے واپس اپنے مقام تک نہیں جاسکتا تھا،لیکن تھک گیا تھا،تنہا ،اداس ۔ہجوم کی تنہائی ،تنہائی کی سب سے کتیُ قسم ہوتی ہے ،اس میں بندہ خود سے بھی کمپرومائز کرلیتا ہے ، میں نے بھی کر لیا۔
ایسی ہی اداسی کے دن تھے جب ایک اور مکھی میری زندگی میں داخل ہوئی ۔۔سادہ سی عام سی ،محبت کا جواب محبت سے دینے والی ،اس میں بھن بھن بہت کم تھی ،سیدھے سے کاٹن کے دھاگے کی بنی ہوئی ،ریشم کی ڈور کا کوئی الجھاوہ نہیں،کوئی پیچ کوئی سنک نہیں ،مرد کو ایسی ہی مکھیوں میں سکون ملتا ہے،جس میں اسکو ذہنی جدوجہد نہ کرنی پڑے،سیدھی بات کا سیدھا جواب ،دو اور دو چار کی طرح ،ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے ،غزہ پہ بمباری ہو ،آئی ایم ایف قیمتیں بڑھائے مکھیوں کی اس قسم پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عورت کی سب سے بڑی دشمن ،ذہانت ہوتی ہے ۔یہ اسکو کبھی خوش نہیں ہونے دیتی ،تجزیہ کرنے کی قوت اسکو تباہ کر دیتی ہے ۔ہمیشہ خوش رہنے کے لئے تھوڑا بہت بے وقوف ہونا بہت ضروری ہے ۔وہ محبت کو بھی جانچنے پرکھنے لگتی ہے ۔ذہین عورت کے سامنے مرد خود کو بڑا چھوٹا سمجھنے لگتا ہے ۔اسکی مردانگی کو ٹھیس لگتی ہے ۔اس کا حاکمانہ پندار مجروح ہوتا ہے جبکہ ایک عام عورت اسکو خاص ہونے کا یقین دلاتی ہے۔روٹھنے اور منانے ،فرمائشیں کرنے کے عرصے میں ایک مرد کو اپنے سپر مین ہونے کا یقین ہوجاتا ہے ۔وہ ہتھیار پھینک کے عورت کو اون کر لیتا ہے ۔ایک عام سی عورت جیت جاتی ہے اور ساری زندگی مرد پہ حکومت کرتی ہے ۔اسکی کمزوری ہی اسکی طاقت بن جاتی ہے ۔ذہین عورت کو یہ گر نہی آتا ،وہ ہار جاتی ہے ۔
شہد کی مکھی کا بھی ڈنک ٹوٹ چکا تھا۔
جدائی کے اس مرحلے میں اسکی خاص آنکھوں میں بڑے عام سے آنسو تھے۔۔!

Monday 25 August 2014


اللہ ہے نا
زیتون بی بی

زرینہ مر گئی۔۔۔
۔۔یہ خبر میرے لیے کس قدر اندوہناک تھی، کوئی اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔۔مجھے ایسا لگا جیسے میں جس درخت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ،جسکی ٹھندی چھاؤں میں سکون محسوس کرتی تھی وہ اچانک ہی گرا دیا گیا ہو۔۔زرینہ سے میرا کیا رشتہ تھا ؟رشتوں کی دنیاوی تشریحات میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔لیکن کوئی مجھ سے پوچھے تو مجھے لگتا ہے جیسے میں باقی سارے رشتوں سے اس ایک رشتے سے جڑی ہوئی تھی ۔۔۔سب سے بڑا رشتہ۔ اللہ کا رشتہ ۔۔جس سے میں آگاہ بھی زرینہ کے زریعے ہی ہوئی ۔زرینہ جو میرے گھر کام کرتی تھی ۔وہ سراپا دل تھی اس لیے کبھی اسکی شکل پہ نظر ہی نہیں گئی ۔۔بس اسکی آنکھوں میں عجیب سا سکون اور نرمی تھی ۔
وہ بلا کی خود دار تھی ۔باوجود ضرورت مند ہونے کے اپنی سیلف رسپیکٹ پہ کوئی سمجھوتہ نہ کرتی۔۔میں نے اس معاملے میں بڑے بڑے مولویوں کو سمجھوتہ کرتے دیکھا ہے ۔۔جسکودرست ثابت کرنے کے لئے مصلحت کا خوبصورت نام دیدیا جاتاہے۔۔بنیادی وجہ وہی اللہ پہ یقین ہے جس سے زرینہ مالامال تھی ۔۔
اس کا شوہر اس طبقے کے دیگر مردوں کی طرح بیکار رہتا۔۔بیٹیوں کی شادیوں اور بیٹوں کی نوکری جیسے مسائل کا ا سکو بھی سامنا تھا۔۔لیکن ان سارے مسائل کا جواب اسکے پاس ایک ہی تھا۔۔اللہ ہے نا۔۔۔جسکے بعد سوال اور مسائل سب ختم ہوجاتے ۔۔باقی رہ جاتا تو صرف سکون ۔۔کیا نہیں تھا اس ایک جملے میں۔۔میں نے اس مو ضوع پے جید علماء کی تقاریر سنی ہیں۔موٹی موٹی کتابیں پڑھی ہیں۔۔مجھے یقین ہے کہ ان ساری تقریروں اور تحریروں کو نچوڑا جائے تو بس ایک جملہ نکلے گا۔۔اللہ ہے نا۔۔۔مجھے اسکی خودداری اور مصلحت نا اندیشی کی ساری کہانی سمجھ آگئی ۔۔اس ایک جملے نے میرے اندر روشنی اور یقین بھردیا۔۔میری زندگی بدل کے رکھ دی ۔۔مجھے زندگی کے ان لمحوں میں حرارت اور روشنی بخشی جب رویوں کے گلیشیرزنے مجھے سرد اور ساکت کر دیا تھا۔
گھروالوں کو اسکے کام سے شکایت بھی ہو جاتی ۔انہوں نے کئی بار اسکو نکال کر کسی جوان اور مضبوط لڑکی کو کام پہ رکھنے کے بارے میں سوچا۔میں نے ہر دفعہ مخالفت کی۔پتہ نہیں کیوں مجھے کیوں ایسا لگتاجیس یاگر زرینہ چلی گئی تومیرا اللہ کے ساتھ رشتہ کمزور ہوجائے گا۔جیسے ایٹم میں موجود قوت الیکٹران کو باندھے رکھتی ہے جہاں یہ قوت کمزور ہوئی میرا رابطہ مرکز سے ٹوٹ جائے گا۔۔کمزور زرینہ میں ایسی ہی مضبوط کشش تھی۔۔۔
اسکے طبقے کے مسائل ہمار ے مسائل سے کہیں شدید تھے ۔۔اسکی شادی شدہ بیٹی کو اچانک ہی دورے پڑنے لگے ۔مجھے حیرت ہوئی جب اس نے بیٹی کا علاج اپنے طبقے کے رواج کے خلاف جھاڑ پھونک کی بجائے کوالیفائڈڈاکٹر سے کروایا۔حالانکہ بیٹی کے سسرال اور برادری کا مشترکہ خیال تھا کہ لڑکی پہ سایہ ہے۔۔زرینہ سب تو بڑے ناراض ہوں گے تم سے؟میں نے پوچھا۔۔ اے بیٹی اللہ ہے نا۔۔
اسکے بعد کسی سوال کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔۔
پھر زرینہ اچانک ہی بہت چھٹیاں کرنے لگی۔۔واپس آئی تو بہت کمزور لگ رہی تھی ۔۔پتہ چلا اسکا ناکارہ شوہر بہت بیمار ہے ۔اور یہ راتوں کو جاگ جاگ کر اسکی خدمت کر رہی ہے۔اسکے لہجے میں شوہر کے لئے محبت اور تشویش تھی۔زرینہ وہ تو نکما اور نا کارہ ہے اسکی وجہ سے تو تمہیں نوکری کرنی پڑتی ہے۔۔میں نے غصے سے کہا۔۔نا بیٹا ایسا نا بول وہ گھر میں پڑا رہتا تھا تو میں بے فکر ہو کر بیٹیوں کو چھوڑ کر کام کرتی تھی ۔۔سر کا سائیں ہے وہ ۔۔اب وہ بیمار ہے تو کیسے چھوڑ دوں اسکو؟مجھے حیرت ہوئی ۔۔مین نے بہت کماؤ شوہروں کی بڑی بیزار بیویاں دیکھی ہیں ۔۔ایک ناکارہ شوہر کی ایسی خدمت گذار بیوی۔۔۔؟
پھر وہ غائب ہو گئی ۔۔ہفتہ دو ہفتہ ۔۔کوئی پتہ نہ تھا۔۔گھر والے اسکی غیر حاضری سے تنگ آگئے تھے۔۔ہم نے نئی کام والی رکھ لی لیکن مجھے اب بھی اس کا انتظار تھا۔۔وہ آئی تو بہت کمزور لگ رہی تھی ۔۔وہ بیوہ ہوچکی تھی ۔میرا دل دکھ سے بھر گیا ۔۔زرینہ اللہ ہے نا ۔۔میں نے اسکے سرپہ ہاتھ رکھا۔۔ہاں بیٹا ہم تو اسکی رضا میں راضی ہیں ۔۔انسان ہیں نا ۔۔اسلئے رو لیتے ہیں ۔۔میں نے اسکو تسلیاں دیں ہمت بندھائی ۔۔ وہ زندگی کی گاڑی میں پھر سے جت گئی ۔۔لیکن بہت کمزور ہوتی جا رہی تھی ۔۔جلدی تھک جاتی ۔۔بیشتر کام چھوٹ چکا تھا ۔۔لیکن اسکے یقین اور سکون میں کوئی کمی نا آئی تھی ۔۔وہ آہستہ آہستہ بستر سے لگ گئی ۔۔بیٹے کمانے کے قابل ہوچکے تھے اس لیے معاشی طور پر کافی بے فکری تھی ۔۔ایک دن اچانک اسکے مرنے کی خبر آئی ۔۔میں اسکے گھر پہنچی تو میت تیار تھی۔۔اسکے چہرے کا سکون قابل دید تھا ۔۔اس پہ موت کی سختی کی بجائے بے فکر سی مسکراہٹ تھی ۔۔اس نے زندگی کی سختیاں جھیلیں تھیں اسلیئے اللہ نے موت کی سختی آسان کردی تھی ۔۔شائد آسانیاں اور سختیاں دونوں کوٹے سے ملتے ہیں ۔۔زرینہ خوش قسمت تھی اس نے زندگی کو سہا تھا۔۔
میرا دل چاہا میں زرینہ سے قبر کی سختی اور آخرت کے بارے میں اسکا خوف پوچھوں ۔۔لیکن مجھے یقین ہے وہ کہے گی بیٹا اللہ ہے نا۔۔
ایسے ہی مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن زرینہ جنت میں داخل ہورہی ہوگی اور سارے عالم مولوی زرینہ کے پیچھے چل رہے ہونگے۔۔

Sunday 17 August 2014

حسن نثار کے نام

زیتون بی بی

پیارے بیٹے دانشور ۔۔۔
کہو کیسے ہو ؟زندہ ہی نہیں ہٹے کٹے بھی ہو۔۔۔خیر سے تمھارے کالمو ں سے پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔کبھی کبھار کسی ٹاک شو میں بھی دکھائی پڑجاتے ہو۔۔۔وہاں سے بھی تمھاری صحت جسمانی وزبانی کا پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔خیر خوش رہو ۔آباد رہو۔۔۔بھئی ایک زمانہ تمھاری سچ بیا نی کا معترف ہے ۔۔ہم بوڑھوں کو یہ کیسی ہی نا گوار خاطرہو پر بھلا ہو اس نو جوان نسل کا ۔۔جس کو سچائی بھی تھرل لگتی ہے ۔۔اکثر تو تمہیں مسیحا ہی سمجھتے ہیں مسیحا بھی کوئی ایسا ویسا؟کیامہا رت سے نشتر چلاتے ہو۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کبھی تو لیہ تو کبھی قینچی پیٹ میں ہی بھول جاتے ھو۔۔آپر یشن تو کا میا ب ہو جاتا ہے ۔۔لیکن مریض،مرض سے نہیں انفیکشن سے مر جا تا ہے۔۔۔
اب تو میڈیا کی آزادی کا دور ہے ۔۔اب کوئی مر کر گرے یا گر کر مرے۔۔خبر بن جاتی ہے ۔۔بلکہ خبر بنا نے کے لئے دھکا بھی خود ہی دے دیا جاتا ہے۔۔ 
خیر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میڈیا ہی کی بدولت ہر چپڑقنا تیے کو نوکری ملی ہوئی ہے ۔۔اب شادی سے بر بادی تک سارے معاملات مارننگ شوز میں ہی طے ہو جاتے ہیں۔۔
جس کچر کچر پہ مائیں جو تے ما را کرتی تھیں اب وہ مارننگ شو ز کی ضما نت سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ارے ہاں تم نے رمضان میں کوئی شو کیوں نہی پکڑا؟کیا لش پش کرتے کُرتے نہیں تھے ؟ارے منگنی کے کھسے اور شادی کی شیروانی ہی پہن لیتے ۔۔اور رکھ لیتے ساتھ کسی حسینہ دلربا کو۔وہ دھاروں دھار روتی تم ڈبڈباتی آنکھوں سے اس کو دیکھتے،اور کہتے کہ او نیک بخت ایسے تو تُو باپ کے مرنے پہ بھی نہ روئی تھی۔جو ایک وقت کے فاقہ زدہ بچے کو لیکر آنسووں کے دریا بہا رہی ہے ۔۔
خدا جھوٹ نا بلوائے ۔ہر ملا ء ہر مفتی کی عید پورے رمضا ن ہوتی رہی ۔۔اب تو ماشا ء اللہ ایسے ایسے خوش شکل مولوی آگئے ہیں کے انہیں دیکھ کر بہت سی حسیناوءں کے منہ میں پانی آجاتا ہے ۔۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اپنے قومی چینل پہ جگن کے ساتھ ایک انتہا ئی خوش شکل نعت خواں آنکھیں بند کر کے اپنی پرسوز آوازمیں نعت پڑھ 
رہا تھا۔ہا ئے بے چاری جگن ۔۔ اسکی ندیدی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔۔ہچکیاں بندھ گئی تھی ۔۔۔کہ شائد ہچکیوں کی 
ٓآواز سے ہی آنکھیں کھول دے۔۔بے چارہ ینگ اور اسمارٹ نعت خواں اسی خوف سے آنکھیں بند کر کے پوری نعت پڑھتا گیا۔۔
جگن کے سارے آنسو بے کار گئے۔۔
خیرچھوڑو۔۔تم نے ٹاک شوزمیں آنا کاہے کو چھوڑدیا؟ویسے تومجھے یہ ٹاک شوزسے زیادہ مرغوں اورکتوں کی لڑائی لگتی ہے۔۔اور کبھی کبھی سانپ اور نیولے کی ۔۔جس میں سانپ مرے یا نیولا جیت چینل کی ہوتی ہے۔۔
اور ہاں بھئی دانشور
مجھے تمہاری امریکہ داری بڑی اچھی لگتی ہے۔۔ہیں تو سب ہی اس زلف گرہ گیر کے اسیر۔۔مانتا کوئی نہیں ۔۔مانے بھی کیسے؟میں تو کہتی
ہوں اگر امریکہ نہ ہوتا تو ہماری آدھی مذہبی و سیاسی جماعتیں پیدا ہی نہ ہوتیں ۔ باقی آدھی بھوکی مر جاتیں۔۔کچھ بھی کہو امریکہ بری طرح
ہماری زندگیوں میں دخیل ہے۔۔سیا ست سے صحا فت تک۔ناسا سے کاسہ تک۔۔جنگ سے امن تک(کیونکہ دونوں کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔)امریکہ کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔کل ہی ایک بچہ مجھے بتا رہا تھا کہ ا سکی تو لولائف میں تک امریکہ گھس آیا تھا ۔۔اگریہ امریکہ نا ہو تا تو موٹی موٹی آنکھو ں والی حسینہ خود بھی کافی موٹی ہوسین کر اسکے بچوں کی ماں بن چکی ہوتی۔ہائے یہ امریکہ ہی تو ہے جسکی وجہ سے حسینہ کی آنکھوں میںآج بھی کشش ہے۔جدائی کے زخم آج بھی ٹیسیں دیتے ہیں۔آج بھی ناسٹلجیا ء لا ہور کی حبس زدہ گرم دوپہروں میں رومانس میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔وہ خط جو پہلی بار لکھا گیا ۔۔جس کا کوئی حرف یاد نہیں ۔گورئمنٹ کا لج کا یہ نوجوان تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ خط انگریزی میں تھا یا اردو میں۔۔بس یہ امریکہ کا کلائڈو اسکوپ ہے جو سارے رومانس کو خوبصورت پیٹرن دیتا ہے ۔۔ٹوٹی ہوئی چوڑی کے رنگین ٹکڑے حقیقت کی ہتھیلی پہ رکھتے ہی بے وقعت ہوجاتے ہیں۔۔
بس ایسے ہی ہمارے بہت سارے لوگوں کا قد امریکہ کی وجہ سے چھ فٹا ہے۔یہ سب کیکر ،تھوہر امریکہ کی اسپانسر شپ سے ہماری زرخیز زمین میں کاشت ہو تے ہیں۔
ہاں تمہارے شہر کا کیا حال ہے؟کراچی کے فلیٹ میں بیٹھ کر چشم تصور سے تمھارا شہر دیکھتی ہوں۔دعاء کرتی ہوں کہ وہ سرسبز وشاداب رہے۔۔کراچی میں تو اب صرف دہشت اگتی ہے۔رہ زن،رہبر۔سب ایک ہی صف میں آگئے ہیں۔۔ظالموں کی صف میں۔۔خیر کس کس کا ماتم کریں؟تیمورکے گھر سے غیرت رخصت ہوئی تو اقبال نے اسکا نوحہ کہا تھا۔اس قوم کا نوحہ گر بھی کسی نہ کسی چینل پہ بیٹھا غیرت کے نقصانات اور بے غیرتی کے فوائد سمجھا رہا ہو تا ہے۔۔ریمنڈڈیوس سے ڈالر وصول کرنے ہوں یا ٹی وی پے اپنے فا قوں کی داستان سنانی ہو۔۔ہم کہاں سے غیرت مند قوم ہیں ؟کبھی کبھی تو سنجیدگی سے خود کشی کے بارے میں سو چتی ہوں۔۔لیکن کم سے کم ۱۰۰ زندگیاں چاہیے ۔قربان کرنے کے لیے۔۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم بنی اسرئیل ہیں۔۔اتنے ہی ظالم ایسے ہی نا شکرے۔۔ہمیں بھی اللہ کے چہیتے ہونے کے زعم نے کہیں کا نا چھوڑا۔۔جو ظلم ہمارے ہاں رواۂے ۔دل کرتا ہے چہرے مسخ ہونے کی بد دعا دوں،پھر سو چتی ہوں کیا ضرورت ہے؟
آہ ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک پہ چڑیلوں اور چمگاڈروں کی حکومت ہے۔۔پچھل پیری حکومتیں کتنے لوگوں کا خون چوسیں گی؟کل ائرپورٹ جاتے ہو ئے ایک شہید کی تصویر پر نظر پڑی ۔۔دل جیسے منہ کو آگیا ۔۔کیا خوبصورت جوان تھا۔۔اسکی آنکھوں میں کیسی چمک تھی۔۔سیاست کی اندھی چمگاڈر نے اسکا بھی خون چوس لیا ۔۔دل جیسے اسکی ماں کے سامنے چلا گیا۔۔اسکی ماں،اسکے بچوں کی ماں۔۔کتنے آنسو چاہیے ؟تو ہی پو چھ کے بتادے ۔۔میرا وعدہ ہے ہم مائیں اتنا روئیں گیاور اس وقت روئیں گی جب تک اس ملک کے گناہ دھل نہ جائیں۔۔
آج دل بڑا اداس تھا ۔تیری چا چی کو ای میل ،شی میل تو آتی نہیں۔۔اس لیئے خط لکھ رہی ہوں ۔۔بہو کو پیار دینا ۔۔اس غریب کا حوصلہ ہے جو تیرے ساتھ گزارہ کر رہی ہے ۔۔بچوں کو بہت پیار ۔۔۔
تیری چاچی۔۔۔
زیتون بی بی

Thursday 7 August 2014


چیکو کا درخت
زیتون بی بی

اس نے پیار سے چیکو پہ ہاتھ پھیرا ۔۔ چیکو کی شاخیں خو شی سے جھو منے لگیں۔۔۔اب اس درخت پہ جا بجا پھل لگے تھے ۔ ۔۔کیسی خوشی ہو تی ہے اپنے لگا ئے ہو ئے درختوں پر پھل دیکھنے کی ۔۔یہ کوئی اس سے پو چھے ۔۔پھر چیکو سے اس کا عجیب رشتہ تھا ۔۔رازداری کا ۔۔جب اس نے چیکو کا پو دا لگا یا تھا تو سب نے یہ کہا تھا کہ چیکو بہت دیر میں بڑھتا ہے ۔۔ اس نے چیکو کو کہا کہ دیکھوتمہیں بہت جلد سایہ دار درخت بننا ہے۔ یہ وہی تا ریخ تھی جب وہ اس سے جدا ہوئی تھی ۔۔۔محبت کیا ہو تی ہے اسکو پتا ہی نہیں تھا۔۔وہ جب جب اسکی تعریف کر تا تو وہ سو چتی ۔۔ اچھا تو یہ ہوتی ہے احمقا نہ محبت ۔۔۔لو بھلا تعریف تو میری دس ہزار لوگ کرتے ھیں ۔۔آ نکھیں اچھی ہیں ۔۔۔ہونٹ رسیلے ہیں ۔۔۔ذہین ہوں تو یہ سب اللہ کی دین ہے ۔۔
اچھا فر ض کرو مجھ میں کوئی خوبی نہ رہے ۔۔پھر؟محبت ختم ۔؟ فنشڈ؟ وہ غصے سے اسکی طرف دیکھتا۔۔نہیں بتاؤ کہا ں جائے گی وہ ؟ میری کان ،ناک ،آ نکھ کی محبت ؟ دفع ہو تم ۔۔۔ وہ غصے سے کہتا۔۔۔وہ کھلکھلا کے ہنستی ۔۔۔بھئی زیادہ سے زیا دہ یہ ہو سکتا ہے کہ میں تمھیں اچھی لگتی ہوں۔۔ اور وہ میں بہت سارے لو گوں کو لگتی ہوں گی ۔۔ 
وہ کہتا ابھی تمہیں نہیں پتا ۔۔ ایک دن پتا چلے گا ۔۔۔اس دن تم بہت روؤ گی ۔۔ لو بھلا میں کیوں رونے لگی ۔۔۔وہ حیرت سے سو چتی ۔۔زیادہ سے زیادہ میں یہ تسلیم کر لوں گی کہ یہ ناک کان آ نکھ ہی محبت کی وجہ ہیں۔۔۔۔ لیکن روؤں گی کیوں ؟۔
’’ اس لیے کہ اس دن تمہیں پتا چلے گا کہ کسی محبت کرنے والے کا جدا ہو نا کیا ہو تا ہے‘‘ ۔۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن محبت کرنے والا جدا تو ہو ۔۔۔ وہ ہنس کر کہتی ۔۔
پھر ایک دن وہ محبت کرنے والا بہت دور چلا گیا ۔۔۔
وہ ہنستے ہوئے رو تی ، اور روتے ہوئے ہنستی ۔۔
ارے بھئی تم تو کمال کے نجو می نکلے ۔۔۔
اب مجھے پتا چلا کہ آ نکھ ،کان ،ناک کی محبت کیا ہوتی ہے ؟ 
یہ سب تو صرف راستے ہیں ۔۔
سارا دن باؤلی بنی گھو متی ۔۔۔۔
دن بے زاری سے گذرتے ۔۔
پھر ایک دن اس نے سو چا کہ حساب کتاب تو ہو جدائی کا ۔۔
اس نے گھر کی سو نی کیاری میں چیکو کا پودا لگایا ۔۔جدائی کے پورے ایک ہفتے بعد ۔۔
اب وہ دل و جان سے ا س کاخیال رکھتی۔۔
چیکو نے نئی مٹی کو اپنا لیا تھا۔
وہ رازداری سے کہتی ؛دیکھو تمھیں صرف بڑا ہونا ہے ۔۔۔
پھل نہیں دینا ۔۔۔
پھل تم اس وقت دو گے جب وہ لوٹ کر آئے گا۔۔
چیکو نے بات مان لی ۔۔
اسکا سایا گھنا ہوتا گیا۔۔
شاخیں پورے میں پھیل گئیں۔۔
لیکن اس پہ پھول تو آتے پھل نہیں ۔۔
پھل آنے سے پہلے ہی جھڑ جا تے۔۔
گھر والے چیکو کو برا بھلا کہتے۔۔
لیکن یہ بات تو صرف وہ جانتی تھی۔۔
چیکو تو صر ف وعدہ نبھا رہا تھا ۔۔
تنہائی اب اس کے لئے بھی تکلیف دہ ہوتی جا رہی تھی۔۔
وہ ایک وعد ے کا بوجھ اٹھا تے اٹھاتے تھک گئی تھی۔۔
لیکن سبق سکھا نے والے نے اس کو پورا سبق سکھانے کی ٹھانی تھی ۔۔
کوئی خیر خبر نہیں تھی ۔۔
اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ا س کی حسسیات بہت تیز ہوگئیں۔۔
جہاں ساری ٹیکنالوجی فیل ہو جاتی ہے وہاں ایک رشتہ سب سے گہرا ہو جا تا ہے۔۔
جو کبھی خواب سے تو کبھی خیال سے خبر دیتا ہے ۔۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ چیکو رو رہا ہے ۔۔
اسکی شاخیں اسکے جسم سے لپٹی ہوئی ہیں۔۔
وہ کہہ رہا ہے ۔۔میری مٹھاس میرے پھلوں کا انتظار کر رہی ہے ،،
تم نے مجھے وعدے کا پابند کر کے بانجھ کر دیا ہے،،
جو وعدہ کسی کو بانجھ کردے وہ کیسے پایئدار ہو سکتا ہے ؟،،
دوسری صبح اس نے چیکو کو وعدے سے آزاد کر دیا ۔۔۔
اور خود کو بھی۔۔۔

Saturday 21 June 2014


بیتیاں
زیتون بی بی کے قلم سے


’’شکر ہے‘‘

لاشیں بری طرح جھلس چکی تھیں۔ شناخت ممکن ہی نہیں تھی۔ حادثہ ہی ایسا خوفناک تھا۔لوحقین نے محض اندازے سے اپنے پیاروں کو شناخت کیا تھا۔شور مچاتے مچاتے میڈیا کی آواز بیٹھ گئی تھی لیکن اس کے چہرے پہ اطمینان بھری خوشی تھی۔’’تیرا شکر ہے مولا۔ میرے گھر کی تینوں لاشیں قابل شناخت ہیں‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’انقلاب‘‘

انقلاب انقلاب۔۔۔اسلامی انقلاب
جو امریکہ کا یار ہے۔۔۔غدار ہے غدار ہے
امریکہ کے ایوانوں میں۔۔۔ٓگ لگا دو آگ لگا دو
شعلہ بیان مقرر کا خطاب ختم ہوا تو مجمع کے جذبات میں آگ لگ چکی تھی۔سب ہی اپنی جیبوں میں انقلاب کی ماچس ڈھونڈ رہے تھے۔واہ۔۔۔بھائی کیا تقریر کرتے ہیں۔دوستوں کے لہجے میں فخر تھا۔ ۔۔۔بھائی اسٹیج سے اتر کر ان ہی کی طرف آرہے تھے۔معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادیں وصول کرتے وہ قریب پہنچے تو اس نے پوچھا:’’بھائی کل یونیورسٹی میں بھی ریلی ہے۔ آپ کب پہنچیں گے؟‘‘
’’سوری بھائی مجھے تو کل بہت تیاری کرنی ہے۔ امریکہ کا ویزہ لگ گیا ہے نا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ بھوکے‘‘

اس کے بدن پہ کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے لیکن اس کو برہنگی کا احساس نہیں تھا۔ عمر بھی کچھ لاابالی سی تھی۔ آنکھوں میں البتہ ہوس اور ضرورت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔جس نے چہرے کے نقوش کو دھندلا دیا تھا۔وہ ایک تماش بین کی خواہش اور اپنی ضرورت کے دام طے کر رہی تھی۔
اس کے بدن پہ بھی جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے برانڈڈ کپڑے تھے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ممنون‘‘


’’پاکستانی قوم کو پتا ہی نہیں کہ کیسا شخص ان کا صدر بنا ہے۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ممنون حسین جیسا صدر ملا۔میں تو ان کا عاشق ہوں۔ اصل میں ابھی تک ان کا کوئی میڈیا سیل ہی نہیں تھا جس سے ان کی مصروفیات کا پتا چلتا۔ابھی حال ہی میں انہوں نے میڈیا سیل بنایا ہے۔اس کا انچارج میرا بھائی ہے۔ میں تو عاشق ہوں صدر صاحب کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ماں‘‘

دہشت گردوں کا تعلق اسلامک ازبک موومنٹ سے تھا
جہنوں نے کراچی ایئر پورٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے
اور انٹر نیٹ پہ تصاویر بھی جاری کر دی ہیں
۱۰ روشن چہروں وا لے دہشت گرد
ہائے۔۔ یہ بھی تو کسی کے بچے تھے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’خیا ل رکھنا‘‘

شادی کی رات بھائی نے بھابھی سے کہا
دیکھو۔ میری بہن نے مجھے پالا ہے۔ دیکھو ان کا خیال رکھنا
بھابھی نے لجاتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے ہم انہیں روٹی کپڑے پہ رکھ لیتے ہیں
بھائی نے تشکر سے بیوی کو دیکھا۔ کتنا خیال رکھنے والی لڑکی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ نوحہ‘‘

ہم سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
ایک سال بعد
اللہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Sunday 8 June 2014



عام لوگ

زیتون بی بی


.... اللہ کا خوف انسان کی زندگی کے لئے ایسا ہی ہے جیسے ہمارے نظام کو چلانے کی لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف۔بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر۔یہاں ہم پولیس کو رشوت دے سکتے ہیں،سفارش سے چھوٹ سکتے ہیں لیکن اللہ کی پولیس کو کون رشوت دے سکتا ہے؟کون کہہ سکتا ہے کہ صاحب کا آدمی ہے اس کی رپورٹ نہ درج کی جائے۔
مولانا صاحب کا رقت آمیز خطاب جاری تھا جس میں وعیدیں ہی وعیدیں تھیں۔میں نے اپنے آس پاس عورتوں پہ نگاہ کی۔سب کے چہرے انجانے خوف سے ٹھنڈے ٹھنڈے لگ رہے تھے۔پتہ نہیں کیوں مجھ پر عجیب سی کوفت طاری ہونے لگی۔ٓخر یہ خوف خود مولانا کے چہرے پہ کیوں نہیں ہے؟میں بھی عجیب ہوں،شاید دماغ ہی الٹا ہے۔جو بات کل عالم کو متاثر کر رہی ہو، مجھ پہ اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔مولانا صاحب کی بڑی شہرت سنی تھی۔سنا تھا صاحب کرامت بزرگ ہیں۔ان کی کرامتوں کی ایسی ایسی داستانیں سنی تھیں کہ دیکھنے کا از حد اشتیاق ہو گیا تھا۔خیر سے ہمیں ان کرامتوں کا کیا کرنا تھا۔لیکن پھر بھی میں سوچتی کہ شاید وہ ایسے ہی صاحب نظر ہوں۔سو میں آج یہاں بیٹھی تھی۔پتہ نہیں یہ میرے شیطانی دماغ کی کارستانی تھی یا الفاظ ہی اتنے بے روح ہو گئے تھے کہ دل کی بجائے دماغ کو مخاطب کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔دماغ جو صرف تخمینے لگاتا ہے اور پھر دماغ نے ماحول کا تخمینہ لگانا شروع لگانا کردیا۔یہ گھر مولانا صاحب کا ہے؟ہم نے برابر والی خاتون کے کان میں کھسر پھسر کی۔پتہ نہیں کسی مرید نے تحفے میں دیا ہے۔ مولانا صاحب کے پاس گھر نہیں تھا ناں؟خاتون کے لہجے میں مولانا صاحب کے لئے عقیدت اور محبت کا رس ٹپکے جا رہا تھا۔ہماری پانچ حسیں کام کریں نہ کریں ایسے موقعوں پہ چھٹی ساتویں ،آٹھویں ساری حسیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ہم نے چور نظروں سے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ماشااللہ بقول یوسفی کمرہ اشیائے غیر ضروری سے اٹااٹ بھرا ہو تھا۔اپر مڈل کلاس گھرانے کی ساری خرافات موجود ہی نہیں استمعال میں بھی تھیں۔اور تو اور کمرے کے ڈسٹ بن میں کے ایف سی کی باقیات بھی نظر آرہی تھیں۔مولانا صاحب کو لنچ بھی کیا مرید بھجواتے ہیں؟ ہم نے برابر والی خاتون کے کان میں اپنی شیطانی سوچ گھسیڑی۔اے بی بی! تم خاموشی سے درس نہیں سن سکتی ہو کیا؟اب کی بار خاتون نے ہمیں گھرک ہی دیا۔ہم نے فی الحال خاموشی اختیا کرلی لیکن ہمارے پیٹ کے مڑوڑتھے کہ ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ اب کی بار ہم نے اپنے داہنے ہاتھ والی خاتون کے استغراق کو توڑا۔اپنا منہ ان کے کان میں گھسایا اور سوال داغ دیا۔مولانا صاحب کیا جاب کرتے ہیں؟؟اے ہے لڑکی!مولانا صا حب کے پاس ٹائم کہاں ہوتا ہے؟اور وہ بھلا کیوں جاب کریں؟انہوں نے ہمیں خودکش نظروں سے گھورا۔کیا مطلب؟تو پھر ان کے خرچے کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ہم نے اس عالیشان درس گاہ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ارے بڑے بڑے لوگ مولانا صاحب کے معتقدین میں سے ہیں وہی اعانت کرتے ہیں۔ہمارے وجود پہ ڈھیر ساری اداسی چھاگئی۔ہم تو بڑی امیدیں لے کر آئے تھے کہ یہاں آکر رو ح کا بوجھ اور بھی سوا ہوگیا۔
مولانا صاحب کو اب خواتین نے گھیر لیا تھا۔سب کے مسائل مولانا صاحب بڑی خوشدلی سے سن رہے تھے۔تھوڑی دیر پہلے والی خوف کی ٹھنڈک مولانا صاحب کی توجہ کی گرمی پاتے ہی بھاپ بن کر اڑ چکی تھی۔اب یہاں صرف دنیا دار لوگوں کا جھمگٹا تھا۔
مولانا صاحب بڑی خوشدلی سے سب کے مسائل سن رہے تھے اور جواب بھی دے رہے تھے۔کسی کی بیٹی کی شادی، کسی کی ساس کا جھگڑا،مولانا صاحب کے پاس سب کے لئے سب کچھ تھا۔عصر کا وقت نکلا جا رہاتھا۔ہم نے ایک گوشے میں بڑی مشکل سے جگہ بنا کر نماز ادا کی۔مولانا صاحب شائد حقوق العباد کی ادائیگی پہ زیادہ یقین رکھتے تھے۔سو وہ دم درود سے لوگوں کی تکلیف دور کر رہے تھے۔ہمارا دماغ مسلسل ایک ہی سوال کی تکرار کر رہا تھا۔دماغ اور زبان دونوں پر ہی اللہ نے بالکل کنٹرول نہیں دیا۔سو میں نے مولانا صاحب سے جواب کی منتظر عورتوں میں سے ایک سے سوال کرلیا۔آخر مولانا صاحب کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟خاتون نے مجھے گھور کر دیکھا۔لڑکی مولانا صاحب رات بھر عبادت میں مصروف رہتے ہیں،دن میں درسگاہ کے معاملات دیکھتے ہیں۔ان کے پاس وقت کہاں؟لیکن رزق حلال کے لئے جدوجہد کرنا بھی تو عین عبادت ہے۔ہم نے کلس کر کہا۔ماشاء اللہ رزق حلال سے ہی سب کچھ چل رہا ہے۔ایک خاتون نے باقاعدہ برا مان کر کہا۔ہم نے ان کے خطوط پہ غور کیا تو کھرا مولانا صاحب تک جا پہنچا۔وہ غالبا مولانا صاحب کی کوئی عزیزہ تھیں۔ہماری تفتیشی سرگرمیاں مولانا صاحب کی نگاہوں سے بھی اوجھل نہ رہ سکیں۔ااور انہوں نے نماز کے لئے تنگیء وقت کا کہہ کر مجلس برخاست کی۔ہم نے سوچا مولانا صاحب تنگی ہی تنگی ہے ۔کیا مولانا صاحب بیعت بھی لیتے ہیں؟ایک خاتون کے لہجے میں اشتیاق تھا۔جی ہاں کیوں نہیں۔عزیزہ کے جواب نے ہمارے ہر سوال کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔
روح کی بے چینی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔میں نے اپنے آس پاس دنیا دار لوگوں کے حالات پہ نظر ڈالی۔آج سے پہلے مجھے ان کی جدوجہد کا کبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔وہ عام سے تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس لوگ جن کے لیء حصول رزق حلال عین عبادت ہے۔جو عبادت کو بھی حلال کرتے ہیں۔وہ لوگ جنہیں بچو ں کو پڑھانا بھی ہے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے۔جن کے لئے حرام کے سارے دروازے چوپٹ کھلے ہیں اور حلال کے دروازوں پہ بھتہ خوروں اور سیاسی بازیگروں کا قبضہ ہے۔لیکن جو اس کے باوجود رزق حلال پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔جن کی ساری زندگی کی کمائی بس ایک بھرم ہی ہوتا ہے۔ایسی چادر جس سے پاوں اور سر دونوں کھلے رہتے ہیں لیکن جن کے سروں پہ خوف خدا سایہ فگن رہتا ہے۔جو اپنے رزق حلال سے مذہبی جماعتوں کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں خود ہی حصہ بٹور لیتی ہیں۔یہ معصوم لوگ جو اپنے احساس گناہ کو لے کر جیتے ہیں۔جن کا ذمیر انہیں کبھی سمجھوتے نہیں کرنے دیتا۔جو جیتے ہیں تو اپنے یوٹیلیٹی بل خود ادا کرتے ہیں۔بیمار ہوتی ہیں تو ان کی ذات اتنا بڑا سرمایہ نہیں ہوتی کہ حکومت

ان پہ اپنا سرمایہ ضایع کرے۔جو مرتے ہیں تو بس مر جاتے ہیں۔خاموشی سے ۔سکون کے ساتھ اور اپنوں کے درمیان۔وہ شہید نہیں کہلاتے نہ اتنے کارآمد ہوتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ان کے خون سے اپنے جوتے چمکائیں۔رزق حلال کی جدو جہد انہیں کبھی انہیں اس عیاشی کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں۔میں نے بوجھل دل کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لوگوں کے بارے میں شاید پہلی بار عقیدت اورہمدردی سے سوچا۔ان سب کے ہاتھوں پر بیعت کر لینی چاہیے۔