Wednesday 10 December 2014

اگر آپ وی آئی پی ہیں تو!


اگر آپ وی آئ پی ہیں تو
(زیتون بی بی(عالیہ ممتاز



کراچی ایک شہر ہے عالم انتخاب میں..بقول یوسفی اگر کراچی کو الٹا ہوکر دیکها جائے تو کراچی کی ہر چیز سیدهی دکهائ دیتی ہے..ہم نے چونکہ بچپن میں ہی یوسفی صاحب کی یہ بات گرہ میں بانده لی تهی لہزاہ ہمیں کراچی ہمیشه سیدها نظر آیا..ہمارا خیال ہے کہ ہمارے علاوہ کراچی کو سیدها دیکهنے کا اعزاز صرف بندروں اور چمگا ڈروں کو حاصل ہے..
خیر جناب وہ احباب جو کراچی سے تعلق نہیں رکهتے انکی سہولت کےلئے ہم کو شش کرتے ہیں کہ بارے کچه کراچی کہ بیاں کردیں...خیال رہے کہ ہم نے لفظ تعلق استعمال کیا ہے ..کراچی کو دیکهنے کی شرط ہم نے نہیں لگائی کیونکہ یہ دعوئ تو ہم بهی نہیں کرسکتے کہ ہم نے کراچی دیکها ہوا ہے..
خیر جناب اگر آپ کی آنکه میں بگولہ سما جائے یا بگولہ کو آپ کی آنکهیں مل جائیں تو کراچی کو دیکهنا چنداں مشکل نہیں ہے ..
جناب کراچی کے طول وعرض کی کیا بات کریں کہ کراچی کے چاروں طرف بهی کراچی ہی ہے .ہاں سہولت کے لئے یہ کہ سکتے ہیں کہ شیطان کی آنت کی لمبائ کو ڈهائ سے ملٹی پلائ کریں تو کراچی کی لمبائ ٹهیک ٹهیک معلوم کی جاسکتی ہے..اسک اندازہ ہم نے ایسے بهی لگایا کہ دوسرے ملکوں یا دوسرے شہروں میں اگر ہم اتنی مسافت طے کریں تو دوسرے شہر او ر کبهی کهی تو دوسرے ملک شروع ہوجاتے ہیں .....
کراچی ک تعمیر میں خاص دهیان رکها گیا ہے کہ خدانخواستہ یہ شہر کہیں خوبصورت نا لگنے لگے......دقیانوسی اور محبت کی ماری مائیں جس طرح آپنے کالے پیلے بچون ک چہروں پے ان سے بهی زیادہ کالا ٹیکہ لگا کر نظر ب یعنی اپنی ہی نظر سے محفوظ تصو ر کر لیتی ہیں بلکل ایس ہی کراچی محبت کے مارے لوگوں نے کراچی کے چہرے پر ایسے ٹیکے اتنی بڑی تعداد میں لگائے کہ اب صرف ٹیکے ہی نظر آتے ہیں کراچی کہیں منہ چهپائے بیٹها ہے..
کراچی کی ترتیب وتخریب میں ایک خاص قسم کا بهونڈوں پن پایا جاتا ہے..عمارتوں کے درمیان اتنا فاصلہ اتنے اہتمام اور شدت سے برقرار رکها گیا ہے کہ انکے درمیان جی بهر کر کچرا اور گندگی پهیلائ جاسکے..
پلوشن فری کراچی کے تصور سے ہی ہم کراچی والوں کا جی متلانے لگتا ہے..
خیر سے کراچی کی آبادئ اتنی ہے کہ بس اسٹاپوں پر ہمہ وقت اتنے لوگ موجود ہوتے ہیں جتنے نواز شریف اور بلاول کے جلسوں میں بڑے خرچے کر کے بلائے جاتے ہیں ..
ہمارا خیال ہے کہ فیس بک کانادر خیال کراچی ہی کی دیواروں کو دیکهکر آیا ہوگا ..کونسی پروڈکٹ اور بائ پروڈکٹ ہے جسکااشتہار ان دیواروں پے نہیں ہوگا ..سیاسی اور سنیاسی سارے بابا ہمیں دیواروں پے نظر آجایئں گے ....ہم بہت اہتمام اور خوشخطی کے ساته غلیظ اشتہار لکهتے ہیں ...ایک ہی دیوار پر آپکو اسلامی اور سرخ انقلاب گڈ مڈ نظر آئیں گے ..کئ دفعہ تو ہم نے اسلامی انقلاب اور بهٹو کے زندہ ہونے کی خبر نالے کی دیوار پر پڑهی ..
کراچی میں پچهلے پچیس سالوں میں کچه ایسی چیزیں متعارف ہوئیں جن سے باقی ملک کی خلق خدا محروم و محفوظ ہے ..اللہ محفوظ ہی رکهے ..مثلا کراچی کو کفن کا آلٹرنیٹ بوری انٹروڈیوس کرانے ک اعزاز حاصل ہے ...اس سے پہلے بقول یوسفی بوری سے اشرفی آٹا نکلتا تها ..خیر سے ہم نے اس تصور کو نئ جہت عطا کی ....
موبئل اسنیچنگ .اغوا برائے تاوان اور لینڈ مافیا کی انڈسٹرزنے دن دونی اور رات چوگنی ترقی کی ..اگر کراچی میں رہتے ہوئے آپ ا موبائل نہیں چهینا گیا ہے و اسکے دو ہی مطلب ہوں گے..یا تو آپ کے پاس موبئل نہیں یا آپ خود ...
کراچی مین ایک اور انڈسٹری ہے جس ے بارے میں غیر کراچی والے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں ..
لیکن یہ انڈسٹری سال میں صرف ایک ہی دفعہ کام کرتی ہے..جی ہاں قربانی کی کهالوں کی انڈسٹری ...
بس جناب کیا کیا جائے کہ ہم کراچی والے دوہری قربانی دیتے ہیں ..ابهی جانور گهر میں نہیں آتاکہ اسکی یا چارے کی بو پر کهالیں لینے والے چلے آتے ہیں ....جماعت اسلامی والے ایک پرچی پکڑا کہ جاتے ہیں کہ دوسری ہی سانس میں ایم کیو ایم والے آجاتے ہیں ..
اور جانور کو قصاب سے بهی زیادہ بری نظروں سے دیکهتے ہیں..
ایک دفعہ تو ہم نے کہ دیا کہ جناب آپ کهال اتار کر لے جائیں ہم بکر ے کو چادر میں بانده کر کهڑا کر دیں گے ..آگے اسکی قسمت ..جوابن ہمیں بهی ایسی ہی نظروں سے دیکها گیا..
کراچی کے موسموں کے بارے میں بهی کچه معلومات دینا ہم اپنی زمہ داری سمجهتے ہیں .ہمارے ہاں دو موسم پائے جاتے ہیں ..یعنی گرمی اور شدید گرمی ....اکثر تو ہمیں استخارے کرنے پڑتے ہیں کہ اے سی اٹهارہ پے چلانا ہے یا چهبیس پر ..
یہی کچه ہے ساقی متاع فقیر..
ہاں باقی ملک سے موسمی مطابقت پیدا کرنے کے لئے ہم موسم کا اندازہ بهی چہرے دیکهکر کرتے ہیں ..مزاجوں کی خشکی اگر کهال بهی نظر آنے لگے تو سمجه لیں کراچی میں سردی ہے ..یا پهر گورے کالے اور کالے بد رنگ ہو جائیں تب بهی یقیں ہو جاتا ہے کہ سردی آنہیں رہی سردی آگئ ہے...
باقی رہ گئے خزاں اور بہار تو اسکی نوبت اس لئے نہیں آتی کہ کراچی میں سبزہ بس اتنی ہی مقدار میں نظر آتا ہے جتنا ہم جیسے اناڑی پینٹر جب ہرا رنگ استعمال کرتے ہوئے برش کو جهٹک دیں تو جتنے چهینٹے کینوس پر سبز رنگ کے نظر آتے ہیں اتنا ہی کراچی میں سبزہ ہے ..کیونکہ دوچار یا ڈهائ پونے تیں قسم کی لوکل گورئمنت رہی ہیں انہوں نے بڑے ہی اہتمام اور دل جمعی سے پرانے پرانے درخت کاٹ 

ڈالے ..یہاں انسانوں کو ہی نہیں پرندوں کو بهی بے گهر کرنے کا کام خاصا تسلی بخش کیا جاتا ہے ..

جناب کراچی ک زکر کریں اور اس کی سڑکوں کا زکر نا ہو ..یہ ممکن نہیں ہے .کیونکہ کراچی میں رہ کر آپ کا واسطہ سب سے زیادہ سڑکوں سے ہی پڑتاہے..آپ نے وہ قومی نغمہ تو سنا ہی ہوگا ..'' چاند میری زمیں پهول میرا وطن .'' ..ہمیں یقین ہے کہ چاند کی زمیں پر اگر کوئ سڑک ہوگی تو وہ ہو بہو ایسی ہی ہوں گی ...
.بڑی ہی منتوں مرادوں سے جو سڑکیں بنائ جاتیں ہیں اور جن کو بنانے والوں کا رخ زیبا ابهی زیبا یعنی سڑک ہی کی طرف ہوتا ہے .اچانک کچه محکموں کو یاد آتا ہے کہ جہاں یہ سڑک بنائ گئ ہے اسکے عین نیچےتو گیس یا پانی کے زخائر ہیں..لہزاہ اسی خضوع خشوع کے ساته اسکو دریافت کرنے کے لئے کهدائ شروع کری جاتی ہے....
کبهی کبهی تو ہمیں ایسیا لگتا ہے کہ یا تو کهدائ کر کے پورا شہر دفن کرنے کا پلان ہے یا پهر نیا شہر دریافت کرنے کا ارادہ ..اس ساری کهدائ کے نتیجے میں جو مٹی اڑتی ہے اسکی ایک مناسب تہہ کراچی والوں کے چہرے پر سلیقے سے جم جاتی ہے .جو پانی نا ہونے ک صورت میں ایک دوسرے ہی نہیں تیسر ے کے منہ پر ہاته پهیر کر تیمم کا جا سکتا ہے....
دروغ بگردن راوی..
کراچی والوں کے کچه شوق دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں..ایک کهانے کا دوسرے مرنے کا ....خیر مرنے اور مارنے کے کام تو بخوبی ہو رہے ہیں ..لیکن ایسا لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی بل عموم اور کراچی کی بلخصوص واحد تفریح کهانا ہے ..
ہم اس کهانے کی بات نہیں کر رہے جو ادارے فروختند چہ ارزاں فروختند ..کے زمرے میں آتا ہے ..کیونکہ اگر ہم نے اس پر لکهنا شروع کیا تو فیس بک کی ساری دیواریں کم پڑ جائیں گی ..
ہم ریسٹورینٹ اور ڈهابوں والے کهانوں کی بات کر رہے ہیں ....اگر کوئ نوارد کراچی آئے تو اسکو ایسا گمان ہوگا کہ کراچی کی ساری خواتیں نے یا تو کهانا پکانے سے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے یا پهر ہم نے گهروں میں کچن بنانے چهوڑ دیے ....ڈهابوں اور سڑک چهاپ ہوٹلوں کا زکر ہی کیا نامی گرامی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈز کی چینوں میں ویک اینڈ پے آپکو باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے..
بعضے بعصے تخت ہوٹل تو آپکو نالے کی دیوار کے ساته بهی مل جائیں گے..جہاں مطمین بهوکے بڑے مزے سے یا تو مرغی کے غسل میت یعنی سوپ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے یا پهر مرحومہ مرغی کی چتا کو بهنبهوڑ رہے ہوں گے .اپنی تسلی کے لئے ہم نے انکو بروسٹ اور روسٹ کے نام دے رکهے ہیں .
..دوسرا شوق جو اسکے ساته روکن کے طور پر ملتا ہے وہ ہے بیمار ہونے کا ..فراز نے شائد اس لئے ہی کہا تها کہ .
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز 
آنکهیں بهجی بجهی ہیں تو چہرے تهکے تهکے..
تو جناب ہم کها کها کر بیمار ہوتے ہیں اور دوبارہ کهانے کے لئے صحت یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ..
اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک تیسری صنعت یعنی اسپتالوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے..
اس سارے قصے اور قضئے کی وجہ بهی ایک سرکاری اسپتال کا چکر تها ..ویسے تو ہماری نوک زبان جو دعا ہوتی ہے اور جس میں ہم بلا تخصیص سب کو شامل کر لیتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ سب کو ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے بچائے .
اب ہم نے اس میں اضافہ یہ کر لیا ہے کہ اللہ سب کو عام آدمی ہونے سے بهی بچائے ..
واقعہ یوں ہے کہ ہمیں ایک سرکاری اسپتال کے درشن کا موقعہ ملا...خیر سے ملا بهی وی آی پی کی سنگت میں ....اگر آپ وی آئ پی ہیں تو سارے دروازے کهل جا سم سم کی طرح چوپٹ ہو جاتے ہیں .بس پاس ورڈ وی آی پی ڈال کر دیکهیں ...
کراچی کے ایک دو بڑے سرکاری اسپتالوں کا درشن ہم نے پہلی دفعہ کیا..ہمیں تو یہ اسپتالوں سے زیادہ مسافر خانے لگے ..لواحقین مریض بڑے ہی سکون سے اسپتال کے فٹ پاتهوں پے محو استراحت تهے..ہمیں انکے اطمنان پر زیادہ غصہ آیا ...ایسی اونٹ قوم قسمت والوں کو ملتی ہے ..جتنا چاہو بار برداری کا کام لو اور کهونٹے سے بانده دو..یہی صورت حال پورے اسپتال کی تهی ..آنکهوں کے وارڈ میں چونکہ مریض صرف آنکهوں کی شکایت کے لئے آتے ہیں اسلئے لفٹ جیسی عیاشی کو بند کر دیا گیا تها .اسلئے مطمئیں اونٹ قوم اپنے مریضوں کو دهاتی اسٹریچر پر سکون سے تیسری منزل تک لے جا رہی تهی..صفائ کے تو نمبر ہی نہیں ملنے تهے لہزاہ اس طرف سے ہم بری الزمہ ہی ہو گئے تهے..آنکهوں کے معائنے کی مہنگی تریں مشینیں موجود تو تهیں لیکن خراب ..کیونکہ ہم نے کهلی آنکهوں سے کیا دیکه لینا تها..
خیر جناب دوسرے اسپتال کی حالت زار میں فرق یہ نظر آیا کہ یہاں زیادہ گندگی تهی اور زیادہ اطمنان .
ڈاکٹروں سے لے کر عملے تک اور مریضوں سے لے کر انکے لواحقین تک سب مطمئیں نظر ائے .کوئ شکوہ نہیں .کیونکہ شکوہ کے لئے اس احساس کا ہونا بہت ضروری ہے جسکو اپنا حق کہتے ہیں ..ہر چیز پر کمپرومائز ہماری عادت ہوگئ ہے .ہمیں کہیں بهی اپنی حق تلفی یا زلت محسوس نہیں ہوتی ..کوئ موت دکها کر بخار پر راضی کرلے تو ہم اسکو اپنا مسیحا سمجه لیتے ہیں .
اس لئے ہر گدها گهوڑا ہمارے سروں پر بیٹه جاتا ہیے اور ہمارے اندر صرف ایک خواہش جنم لیتی ہے ..کہ کسی بهی طرح ،کسی بهی چور دروازے سے ہم وی آی پی بن جائیں ..
کیونکہ اگر آپ وی آئ پی ہیں تو آپکے راستے میں اندهے بهی آئیں تو ان پر بلا تخصیص چهترول کردی جائے گی ..
ہم اپنے سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹهے سرخ سفید دهاڑیوں والے اندهے ،بہروں ،لولے لنگڑوں کو سڑکوں پر گهسیٹے جانے کے منظر کو انجوائے کریں گے..
کیونکہ اگر آپ وی آی پی نہیں ہیں تو اپکو اس ملک میں زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں۔۔۔۔

Wednesday 3 December 2014

ٹیلی پیتھی
زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)

'' مجهے اس سے شدید محبت ہے ''
مطلب آپکو محبت کا ڈینگی ہے ..؟؟
میں نہایت نے معصوم سوال کیا ..
'' آپ مزاق اڑا رہی ہیں ..'' 
جی بلکل ..
میں نے تسلیم کیا ..
اسکی آنکهوں میں ضبط سے سرخ سرخ نمی جهلملانے لگی ..
مجهے اپنی سفاکی پے تهوڑی سی شرمندگی ہوئ ....
'' سوری '' 
میں نے خاصا دل پر جبر کر کے کہا ...
اس نے میری معزرت کو وزیرانہ نظر سے دیکها ..یعنئ حقارت سے ..
..خیر میں کا فی ڈهیٹ ہوں .
اچها تو یہ بتاو کہ تمہیں اس سے کتنی شدید محبت ہے....؟؟
میرا مطلب ہے کہ دس کلو ، بیس کلو ..یا مور دین ..؟؟
میں نے خالص دکان دارانہ طریقے سے سوال کیا 
اس نے اپنی بڑی بڑی آنکهیں پوری کی پوری میری آنکهوں میں ڈال دیں..مجهے لگا میری آنکهیں گم ہوگیئں ہیں .....
''آپکو پتا ہے مجهے اسکے ہر لمحہ کا پتہ ہوتا ہے..''.
''ہاں نا ..کمیونیکشن کے ہزاروں طریقے ہیں'' ..
مین نے پهر اسکے محبت کے باٹوں کوہلکا ثابت کرنے کی کو شش کی ..
...اسکے چہرے پر حقارت سے بهرپورمسکراہٹ تهی..
''ہمارا پچهلے چند سال سے کوئ رابطہ نہیں ہے ''..
''اچها پهر بهی تمہیں اسکا پتہ ہے کہ وہ کیسا ہے ..''
'''جی ''
اس نے ایک تکلیف دہ سانس بهری ..
''مجهے اس کے ایک ایک لمحہ کا پتہ ہے ..''
اب وہ خواب زہ لہجے میں بول رہی تهی..
'' اچها اس وقت وہ کیا کر رہا ہے .'' 
میں نے بلکل ایسے سوال کیا جیسے کرسٹل بال والی مائ سے فلموں میں کیا جاتا ہے ..
'' اس وقت اس نے ٹی شرٹ پہنی ہوئ ہے اسکے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے .پانی کے قطرے اسکی ٹی شرٹ پے بهی ہیں..'' 
اسکا خواب زدہ لہجہ اور گم شدہ وجود مجهے حیران کر رہا تها ..
وہ مکمل ٹرانس میں چلی گئ تهی 
.اس کا وجود تحلیل ہوگیا تها .صرف سرگوشی نما خودکلامی سنائ دے رہی تهی...
''وہ کسی بات پر مسکرا رہا ہے ''
اسکے اپنے چہرے پر بڑی مطمئیں مسکراہٹ تهی...
میں خود بهی اسکی آنکهوں میں اپنی آنکهیں بهول گئ تهی...اب مجهے بهی صاف دکهائ دے رہا تها....بولتی آنکهوں اور جارحانہ لہجے والا میرے بهی سامنے تها .اسکے آس پاس کیریبین سگار کی خوشبو تهی ..کڑوی سی مٹهاس والی خوشبو.. وہ بولتے ہوئے اپنی آنکهوں سے بچهو کے ڈنک کا کام لیے رہا تها ..
''مجهے اسکی آنکهوں نے ڈس لیا ہے .''
اسکی آواز میں خمار آلود ازیت تهی..
میں خاموش تهی ..
''
''وہ مجهے بہت مس کررہا ہے''
میں ہمت کر کے اس ٹرانس سے باہر آگئ..
ایسا کبهی نہیں ہوتا کہ کوئ بهی شخص یا واقعہ مجه پر اس طرح اثر انداز ہو..مجهے اپنی کمزوری پر غصہ بهی تها لیکں اس تجربے نے مجهے عجیب طریقے سے متاثر کیا تها ..
میں نے بہت تیزی سے خود پر کنٹرول کیا...
اچها چلو مان لیا تمہاری محبت سارے فاصلے مٹا کر تمہیں با خبر کر دیتی ہے ..لیکن کیا دوسری طرف بهی ایسا ہی ہوتا ہے ...
یہ سوال مین نے کیا تو اس سے تها لیکن جواب خود سے بهی مانگ رہی تهی .دل نہیں چاہ رہا تها کہ اس کا جواب نفی میں ہو ...جو جزبہ اتنا طاقتور ہوکہ جس کو چاہے محبوب کا دیدار کرادے ...ایک دهڑکتا ہوا سانس لیتا ہوا رشتہ ہوتا ہے..
ایک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی طرح...جو روشنی اور تابکاری ایک ساته دیتا ہے ..
اس کے ہوٹنوں پے بڑی تابکار مسکراہٹ تهی..جلتی بجهتی..مغرور سی..
'' اسکو پتہ ہے کہ میں یہاں آپ کے پاس بیٹهی ہوں ''

الم تر کیف
زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)
،اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ مستقل بوجه ڈهونے،تابعداری دکهانےاور
بندهے رہنے کے باعث وہ ان حالوں کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ما لک اسے کسی چهوٹے پتهر یا سوکهی ٹہنی س بهی بانده دے تو وہ یہی سمجهتا ہےکہ بہت مضبوطی سے بنده ہوا ہے..لاکه زور لگائےاور بلبلائےرسی نہی تڑا سکتا.،،


یوسفی صاحب کی اس بات کی تصدیق کے لئے پوری قوم کو بل عموم اور کراچی والوں کو بل خصوص پش کیا جاسکتا ہے..
ہم ایسی ہی اونٹ قوم ہیں ...ہمارے سوار تو بدل جاتے ہیں لیکن قسمت نہیں..
ہم کراچی والوں نے تو پچیس سال سے سوار اور خوف کی ڈبل سواری کا مزا چکها ہے..سوار کے چہرے بے شک بدلتے رہے ..کبهی کچه گهڑی کو سوار نے تو سستا بهی لیا لیکں خوف و دہشت پیر تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں اور پیٹ پر سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتے تهے..ہم خوف کهاتے ،.دہشت اوڑهتے اور دوسری صبح خوف کے ساته ہی بیدار ہوتے...ہر صبح ہم سورج کی طرف امید سے زیادہ تشویش سے دیکهتے....اسی خوف میں ایک نسل پیدا بهی ہوئ اور بڑی بهی ہوگئ..کراچی ایک کبڑے کی طرح اپنے دکه سے بیزار لیکن اسکو اٹهائے پهرنے پر مجبور تها..بہت سارے لوگ مسیحا بن کر اتے اور اس شہر کو اپنانے کا نعرہ مستانہ لگاتے اور گم ہوجاتے..کبڑے کا کب بدنما ہی نہیں بدبودار بهی ہوتا جا رہاتها ..ہم نے اس کو اپنا مقدر سمجه لیا تها ..
اور تها بهی ....ہمارے اندر بزدلی ہر روز انجیکٹ کی جاتی .اور ہم خوف کے نشے سےاپنی زندگیوں کو اپنی آنکهوں کے سامنے قتل ہوتے دیکهتے .جیسے یہ ہمارے نہیں کسی اور کے ساته ہورہا ہو ..
کہتے ہیں ہر ویرانہ کبهی ناکبهی شہر ہوتا ہے .....ہمارا شہر بهی ویرانہ تها ..ہم نے یہاں دہشت کو دندناتے اور زندگی کو ننگے پاوں دوڑتے دیکها ہے .ہماری آنکهوں نے چمگاڈر کی شکلوں کو اسکول کالج اور یونی ورسٹیوں میں خون پیتے دیکها ہے ..ہم نے ہر دن موت کو فاتح دیکها ہے .
ہم نے دہشت کو گهروں میں کودتے اور موت کو دستک دیتے سنا ہے ..
..لیکن خاردار جهاڑیوں کے درمیان بغاوت کا بیج بو دیا گیا ..ایک آواز جو کهوکهلی نہین تهی .جو غیرت کی آواز تهی .جو زندگی سے بهرپور تهی اسنے نئ نسل کی کان میں بغاوت کئ ازان دی ..وہ آواز صبح کے چہرے کی پہلی
کرن تهی ..ویرانے میں ازان کی طرح..ہم نے چپکے چپکے بغاوت کو پالا ..مجهے کبهی کبهی فرعون کے محل میں حضرت موسی کی پرورش یاد
آجاتی ..ہر دور کے موسی فرعونوں ہی کے محل میں اسی کے زیر سایہ ..
پروان چڑهتے ہیں ..ہماری نسل بهی ایسے ہی پروان چڑهی ..
جو لوگ کراچی سے تعلق نہیں رکهتے وہ کبهی بهی ہمارے خوف اور دکه خا اندازہ نہیں لگا سکتے ...وہ ہماری ماوں کی آنکهوں کی اس مایوسی اور خوف کا تصور نہیں کر سکتے جو ہمیں گهر سے باہر جاتا ہوا دیکهکر ہوتی تهی.بچے صحیح سلامت گهر آجائیں تو اس میں مسرت سے زیادہ حیرت ہوتی..
ہم رنگ برنگے سرخ سبز انقلابوں کی بس آیا ہی چاہتی کی بریکنگ نیوز سے متلا چکے تهے ....ایسے ہر چہرے پر کمپرومائز لکها صاف نظر آتا .جس سے ہمیں نفرت ہو چکی تهی ..
ہم نے ابابیلیں بننے کا فیصلہ کر لیا ...اپنی چونچوں میں بغاوت کی کنکریاں جمع کرتے رہے....
پچیس دسمبر ...
کراچی کی پچیس سالہ تاریخ کی سب سے باغی صبح تهی ..
خان کا کراچی میں پہلا جلسہ اور ہماری آخری امید ...ابابیلوں کے دل دهڑ دهڑ دهڑک رہے تهے...یہ اگر ناکام ہوجاتا تو ہمیں مزید پچیس سال اس منحوس خوف کو جهیلنا ہوتا ..
ہماری آزمائش ختم ہو گئ تهی ..
خوف کے بت میں پہلی دراڑ پڑ چکی تهی..
ہم اسی دن جیت گئے تهے ..ہم نے خوف کوپہلے دل سے نکالا تها .پهر شہر سے..
قوموں کی تاریخ میں لمحے صدیوں پر بهاری ہوتے ہیں .جس لمحے وہ فیصلہ کرتی ہیں وہی انکی قسمت بن جاتا ہے ..
تیس نومبر ایسا ہی دن ..
جسکو کهڑا ہونا تها وہ کهڑا ہوا ہے..
جس نے عزت سے جینے کا فیصلہ کرنا تها اس نے ثابت کر دیا ہے.
باقی قوم کا مسئلہ ہے وہ اونٹ ثابت ہوتی ہے یا غیرت مند انسان ..