Saturday 21 June 2014


بیتیاں
زیتون بی بی کے قلم سے


’’شکر ہے‘‘

لاشیں بری طرح جھلس چکی تھیں۔ شناخت ممکن ہی نہیں تھی۔ حادثہ ہی ایسا خوفناک تھا۔لوحقین نے محض اندازے سے اپنے پیاروں کو شناخت کیا تھا۔شور مچاتے مچاتے میڈیا کی آواز بیٹھ گئی تھی لیکن اس کے چہرے پہ اطمینان بھری خوشی تھی۔’’تیرا شکر ہے مولا۔ میرے گھر کی تینوں لاشیں قابل شناخت ہیں‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’انقلاب‘‘

انقلاب انقلاب۔۔۔اسلامی انقلاب
جو امریکہ کا یار ہے۔۔۔غدار ہے غدار ہے
امریکہ کے ایوانوں میں۔۔۔ٓگ لگا دو آگ لگا دو
شعلہ بیان مقرر کا خطاب ختم ہوا تو مجمع کے جذبات میں آگ لگ چکی تھی۔سب ہی اپنی جیبوں میں انقلاب کی ماچس ڈھونڈ رہے تھے۔واہ۔۔۔بھائی کیا تقریر کرتے ہیں۔دوستوں کے لہجے میں فخر تھا۔ ۔۔۔بھائی اسٹیج سے اتر کر ان ہی کی طرف آرہے تھے۔معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادیں وصول کرتے وہ قریب پہنچے تو اس نے پوچھا:’’بھائی کل یونیورسٹی میں بھی ریلی ہے۔ آپ کب پہنچیں گے؟‘‘
’’سوری بھائی مجھے تو کل بہت تیاری کرنی ہے۔ امریکہ کا ویزہ لگ گیا ہے نا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ بھوکے‘‘

اس کے بدن پہ کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے لیکن اس کو برہنگی کا احساس نہیں تھا۔ عمر بھی کچھ لاابالی سی تھی۔ آنکھوں میں البتہ ہوس اور ضرورت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔جس نے چہرے کے نقوش کو دھندلا دیا تھا۔وہ ایک تماش بین کی خواہش اور اپنی ضرورت کے دام طے کر رہی تھی۔
اس کے بدن پہ بھی جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے برانڈڈ کپڑے تھے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ممنون‘‘


’’پاکستانی قوم کو پتا ہی نہیں کہ کیسا شخص ان کا صدر بنا ہے۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ممنون حسین جیسا صدر ملا۔میں تو ان کا عاشق ہوں۔ اصل میں ابھی تک ان کا کوئی میڈیا سیل ہی نہیں تھا جس سے ان کی مصروفیات کا پتا چلتا۔ابھی حال ہی میں انہوں نے میڈیا سیل بنایا ہے۔اس کا انچارج میرا بھائی ہے۔ میں تو عاشق ہوں صدر صاحب کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ماں‘‘

دہشت گردوں کا تعلق اسلامک ازبک موومنٹ سے تھا
جہنوں نے کراچی ایئر پورٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے
اور انٹر نیٹ پہ تصاویر بھی جاری کر دی ہیں
۱۰ روشن چہروں وا لے دہشت گرد
ہائے۔۔ یہ بھی تو کسی کے بچے تھے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’خیا ل رکھنا‘‘

شادی کی رات بھائی نے بھابھی سے کہا
دیکھو۔ میری بہن نے مجھے پالا ہے۔ دیکھو ان کا خیال رکھنا
بھابھی نے لجاتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے ہم انہیں روٹی کپڑے پہ رکھ لیتے ہیں
بھائی نے تشکر سے بیوی کو دیکھا۔ کتنا خیال رکھنے والی لڑکی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ نوحہ‘‘

ہم سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
ایک سال بعد
اللہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Sunday 8 June 2014



عام لوگ

زیتون بی بی


.... اللہ کا خوف انسان کی زندگی کے لئے ایسا ہی ہے جیسے ہمارے نظام کو چلانے کی لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف۔بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر۔یہاں ہم پولیس کو رشوت دے سکتے ہیں،سفارش سے چھوٹ سکتے ہیں لیکن اللہ کی پولیس کو کون رشوت دے سکتا ہے؟کون کہہ سکتا ہے کہ صاحب کا آدمی ہے اس کی رپورٹ نہ درج کی جائے۔
مولانا صاحب کا رقت آمیز خطاب جاری تھا جس میں وعیدیں ہی وعیدیں تھیں۔میں نے اپنے آس پاس عورتوں پہ نگاہ کی۔سب کے چہرے انجانے خوف سے ٹھنڈے ٹھنڈے لگ رہے تھے۔پتہ نہیں کیوں مجھ پر عجیب سی کوفت طاری ہونے لگی۔ٓخر یہ خوف خود مولانا کے چہرے پہ کیوں نہیں ہے؟میں بھی عجیب ہوں،شاید دماغ ہی الٹا ہے۔جو بات کل عالم کو متاثر کر رہی ہو، مجھ پہ اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔مولانا صاحب کی بڑی شہرت سنی تھی۔سنا تھا صاحب کرامت بزرگ ہیں۔ان کی کرامتوں کی ایسی ایسی داستانیں سنی تھیں کہ دیکھنے کا از حد اشتیاق ہو گیا تھا۔خیر سے ہمیں ان کرامتوں کا کیا کرنا تھا۔لیکن پھر بھی میں سوچتی کہ شاید وہ ایسے ہی صاحب نظر ہوں۔سو میں آج یہاں بیٹھی تھی۔پتہ نہیں یہ میرے شیطانی دماغ کی کارستانی تھی یا الفاظ ہی اتنے بے روح ہو گئے تھے کہ دل کی بجائے دماغ کو مخاطب کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔دماغ جو صرف تخمینے لگاتا ہے اور پھر دماغ نے ماحول کا تخمینہ لگانا شروع لگانا کردیا۔یہ گھر مولانا صاحب کا ہے؟ہم نے برابر والی خاتون کے کان میں کھسر پھسر کی۔پتہ نہیں کسی مرید نے تحفے میں دیا ہے۔ مولانا صاحب کے پاس گھر نہیں تھا ناں؟خاتون کے لہجے میں مولانا صاحب کے لئے عقیدت اور محبت کا رس ٹپکے جا رہا تھا۔ہماری پانچ حسیں کام کریں نہ کریں ایسے موقعوں پہ چھٹی ساتویں ،آٹھویں ساری حسیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ہم نے چور نظروں سے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ماشااللہ بقول یوسفی کمرہ اشیائے غیر ضروری سے اٹااٹ بھرا ہو تھا۔اپر مڈل کلاس گھرانے کی ساری خرافات موجود ہی نہیں استمعال میں بھی تھیں۔اور تو اور کمرے کے ڈسٹ بن میں کے ایف سی کی باقیات بھی نظر آرہی تھیں۔مولانا صاحب کو لنچ بھی کیا مرید بھجواتے ہیں؟ ہم نے برابر والی خاتون کے کان میں اپنی شیطانی سوچ گھسیڑی۔اے بی بی! تم خاموشی سے درس نہیں سن سکتی ہو کیا؟اب کی بار خاتون نے ہمیں گھرک ہی دیا۔ہم نے فی الحال خاموشی اختیا کرلی لیکن ہمارے پیٹ کے مڑوڑتھے کہ ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ اب کی بار ہم نے اپنے داہنے ہاتھ والی خاتون کے استغراق کو توڑا۔اپنا منہ ان کے کان میں گھسایا اور سوال داغ دیا۔مولانا صاحب کیا جاب کرتے ہیں؟؟اے ہے لڑکی!مولانا صا حب کے پاس ٹائم کہاں ہوتا ہے؟اور وہ بھلا کیوں جاب کریں؟انہوں نے ہمیں خودکش نظروں سے گھورا۔کیا مطلب؟تو پھر ان کے خرچے کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ہم نے اس عالیشان درس گاہ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ارے بڑے بڑے لوگ مولانا صاحب کے معتقدین میں سے ہیں وہی اعانت کرتے ہیں۔ہمارے وجود پہ ڈھیر ساری اداسی چھاگئی۔ہم تو بڑی امیدیں لے کر آئے تھے کہ یہاں آکر رو ح کا بوجھ اور بھی سوا ہوگیا۔
مولانا صاحب کو اب خواتین نے گھیر لیا تھا۔سب کے مسائل مولانا صاحب بڑی خوشدلی سے سن رہے تھے۔تھوڑی دیر پہلے والی خوف کی ٹھنڈک مولانا صاحب کی توجہ کی گرمی پاتے ہی بھاپ بن کر اڑ چکی تھی۔اب یہاں صرف دنیا دار لوگوں کا جھمگٹا تھا۔
مولانا صاحب بڑی خوشدلی سے سب کے مسائل سن رہے تھے اور جواب بھی دے رہے تھے۔کسی کی بیٹی کی شادی، کسی کی ساس کا جھگڑا،مولانا صاحب کے پاس سب کے لئے سب کچھ تھا۔عصر کا وقت نکلا جا رہاتھا۔ہم نے ایک گوشے میں بڑی مشکل سے جگہ بنا کر نماز ادا کی۔مولانا صاحب شائد حقوق العباد کی ادائیگی پہ زیادہ یقین رکھتے تھے۔سو وہ دم درود سے لوگوں کی تکلیف دور کر رہے تھے۔ہمارا دماغ مسلسل ایک ہی سوال کی تکرار کر رہا تھا۔دماغ اور زبان دونوں پر ہی اللہ نے بالکل کنٹرول نہیں دیا۔سو میں نے مولانا صاحب سے جواب کی منتظر عورتوں میں سے ایک سے سوال کرلیا۔آخر مولانا صاحب کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟خاتون نے مجھے گھور کر دیکھا۔لڑکی مولانا صاحب رات بھر عبادت میں مصروف رہتے ہیں،دن میں درسگاہ کے معاملات دیکھتے ہیں۔ان کے پاس وقت کہاں؟لیکن رزق حلال کے لئے جدوجہد کرنا بھی تو عین عبادت ہے۔ہم نے کلس کر کہا۔ماشاء اللہ رزق حلال سے ہی سب کچھ چل رہا ہے۔ایک خاتون نے باقاعدہ برا مان کر کہا۔ہم نے ان کے خطوط پہ غور کیا تو کھرا مولانا صاحب تک جا پہنچا۔وہ غالبا مولانا صاحب کی کوئی عزیزہ تھیں۔ہماری تفتیشی سرگرمیاں مولانا صاحب کی نگاہوں سے بھی اوجھل نہ رہ سکیں۔ااور انہوں نے نماز کے لئے تنگیء وقت کا کہہ کر مجلس برخاست کی۔ہم نے سوچا مولانا صاحب تنگی ہی تنگی ہے ۔کیا مولانا صاحب بیعت بھی لیتے ہیں؟ایک خاتون کے لہجے میں اشتیاق تھا۔جی ہاں کیوں نہیں۔عزیزہ کے جواب نے ہمارے ہر سوال کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔
روح کی بے چینی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔میں نے اپنے آس پاس دنیا دار لوگوں کے حالات پہ نظر ڈالی۔آج سے پہلے مجھے ان کی جدوجہد کا کبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔وہ عام سے تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس لوگ جن کے لیء حصول رزق حلال عین عبادت ہے۔جو عبادت کو بھی حلال کرتے ہیں۔وہ لوگ جنہیں بچو ں کو پڑھانا بھی ہے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے۔جن کے لئے حرام کے سارے دروازے چوپٹ کھلے ہیں اور حلال کے دروازوں پہ بھتہ خوروں اور سیاسی بازیگروں کا قبضہ ہے۔لیکن جو اس کے باوجود رزق حلال پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔جن کی ساری زندگی کی کمائی بس ایک بھرم ہی ہوتا ہے۔ایسی چادر جس سے پاوں اور سر دونوں کھلے رہتے ہیں لیکن جن کے سروں پہ خوف خدا سایہ فگن رہتا ہے۔جو اپنے رزق حلال سے مذہبی جماعتوں کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں خود ہی حصہ بٹور لیتی ہیں۔یہ معصوم لوگ جو اپنے احساس گناہ کو لے کر جیتے ہیں۔جن کا ذمیر انہیں کبھی سمجھوتے نہیں کرنے دیتا۔جو جیتے ہیں تو اپنے یوٹیلیٹی بل خود ادا کرتے ہیں۔بیمار ہوتی ہیں تو ان کی ذات اتنا بڑا سرمایہ نہیں ہوتی کہ حکومت

ان پہ اپنا سرمایہ ضایع کرے۔جو مرتے ہیں تو بس مر جاتے ہیں۔خاموشی سے ۔سکون کے ساتھ اور اپنوں کے درمیان۔وہ شہید نہیں کہلاتے نہ اتنے کارآمد ہوتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ان کے خون سے اپنے جوتے چمکائیں۔رزق حلال کی جدو جہد انہیں کبھی انہیں اس عیاشی کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں۔میں نے بوجھل دل کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لوگوں کے بارے میں شاید پہلی بار عقیدت اورہمدردی سے سوچا۔ان سب کے ہاتھوں پر بیعت کر لینی چاہیے۔