Monday 25 August 2014


اللہ ہے نا
زیتون بی بی

زرینہ مر گئی۔۔۔
۔۔یہ خبر میرے لیے کس قدر اندوہناک تھی، کوئی اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔۔مجھے ایسا لگا جیسے میں جس درخت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ،جسکی ٹھندی چھاؤں میں سکون محسوس کرتی تھی وہ اچانک ہی گرا دیا گیا ہو۔۔زرینہ سے میرا کیا رشتہ تھا ؟رشتوں کی دنیاوی تشریحات میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔لیکن کوئی مجھ سے پوچھے تو مجھے لگتا ہے جیسے میں باقی سارے رشتوں سے اس ایک رشتے سے جڑی ہوئی تھی ۔۔۔سب سے بڑا رشتہ۔ اللہ کا رشتہ ۔۔جس سے میں آگاہ بھی زرینہ کے زریعے ہی ہوئی ۔زرینہ جو میرے گھر کام کرتی تھی ۔وہ سراپا دل تھی اس لیے کبھی اسکی شکل پہ نظر ہی نہیں گئی ۔۔بس اسکی آنکھوں میں عجیب سا سکون اور نرمی تھی ۔
وہ بلا کی خود دار تھی ۔باوجود ضرورت مند ہونے کے اپنی سیلف رسپیکٹ پہ کوئی سمجھوتہ نہ کرتی۔۔میں نے اس معاملے میں بڑے بڑے مولویوں کو سمجھوتہ کرتے دیکھا ہے ۔۔جسکودرست ثابت کرنے کے لئے مصلحت کا خوبصورت نام دیدیا جاتاہے۔۔بنیادی وجہ وہی اللہ پہ یقین ہے جس سے زرینہ مالامال تھی ۔۔
اس کا شوہر اس طبقے کے دیگر مردوں کی طرح بیکار رہتا۔۔بیٹیوں کی شادیوں اور بیٹوں کی نوکری جیسے مسائل کا ا سکو بھی سامنا تھا۔۔لیکن ان سارے مسائل کا جواب اسکے پاس ایک ہی تھا۔۔اللہ ہے نا۔۔۔جسکے بعد سوال اور مسائل سب ختم ہوجاتے ۔۔باقی رہ جاتا تو صرف سکون ۔۔کیا نہیں تھا اس ایک جملے میں۔۔میں نے اس مو ضوع پے جید علماء کی تقاریر سنی ہیں۔موٹی موٹی کتابیں پڑھی ہیں۔۔مجھے یقین ہے کہ ان ساری تقریروں اور تحریروں کو نچوڑا جائے تو بس ایک جملہ نکلے گا۔۔اللہ ہے نا۔۔۔مجھے اسکی خودداری اور مصلحت نا اندیشی کی ساری کہانی سمجھ آگئی ۔۔اس ایک جملے نے میرے اندر روشنی اور یقین بھردیا۔۔میری زندگی بدل کے رکھ دی ۔۔مجھے زندگی کے ان لمحوں میں حرارت اور روشنی بخشی جب رویوں کے گلیشیرزنے مجھے سرد اور ساکت کر دیا تھا۔
گھروالوں کو اسکے کام سے شکایت بھی ہو جاتی ۔انہوں نے کئی بار اسکو نکال کر کسی جوان اور مضبوط لڑکی کو کام پہ رکھنے کے بارے میں سوچا۔میں نے ہر دفعہ مخالفت کی۔پتہ نہیں کیوں مجھے کیوں ایسا لگتاجیس یاگر زرینہ چلی گئی تومیرا اللہ کے ساتھ رشتہ کمزور ہوجائے گا۔جیسے ایٹم میں موجود قوت الیکٹران کو باندھے رکھتی ہے جہاں یہ قوت کمزور ہوئی میرا رابطہ مرکز سے ٹوٹ جائے گا۔۔کمزور زرینہ میں ایسی ہی مضبوط کشش تھی۔۔۔
اسکے طبقے کے مسائل ہمار ے مسائل سے کہیں شدید تھے ۔۔اسکی شادی شدہ بیٹی کو اچانک ہی دورے پڑنے لگے ۔مجھے حیرت ہوئی جب اس نے بیٹی کا علاج اپنے طبقے کے رواج کے خلاف جھاڑ پھونک کی بجائے کوالیفائڈڈاکٹر سے کروایا۔حالانکہ بیٹی کے سسرال اور برادری کا مشترکہ خیال تھا کہ لڑکی پہ سایہ ہے۔۔زرینہ سب تو بڑے ناراض ہوں گے تم سے؟میں نے پوچھا۔۔ اے بیٹی اللہ ہے نا۔۔
اسکے بعد کسی سوال کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔۔
پھر زرینہ اچانک ہی بہت چھٹیاں کرنے لگی۔۔واپس آئی تو بہت کمزور لگ رہی تھی ۔۔پتہ چلا اسکا ناکارہ شوہر بہت بیمار ہے ۔اور یہ راتوں کو جاگ جاگ کر اسکی خدمت کر رہی ہے۔اسکے لہجے میں شوہر کے لئے محبت اور تشویش تھی۔زرینہ وہ تو نکما اور نا کارہ ہے اسکی وجہ سے تو تمہیں نوکری کرنی پڑتی ہے۔۔میں نے غصے سے کہا۔۔نا بیٹا ایسا نا بول وہ گھر میں پڑا رہتا تھا تو میں بے فکر ہو کر بیٹیوں کو چھوڑ کر کام کرتی تھی ۔۔سر کا سائیں ہے وہ ۔۔اب وہ بیمار ہے تو کیسے چھوڑ دوں اسکو؟مجھے حیرت ہوئی ۔۔مین نے بہت کماؤ شوہروں کی بڑی بیزار بیویاں دیکھی ہیں ۔۔ایک ناکارہ شوہر کی ایسی خدمت گذار بیوی۔۔۔؟
پھر وہ غائب ہو گئی ۔۔ہفتہ دو ہفتہ ۔۔کوئی پتہ نہ تھا۔۔گھر والے اسکی غیر حاضری سے تنگ آگئے تھے۔۔ہم نے نئی کام والی رکھ لی لیکن مجھے اب بھی اس کا انتظار تھا۔۔وہ آئی تو بہت کمزور لگ رہی تھی ۔۔وہ بیوہ ہوچکی تھی ۔میرا دل دکھ سے بھر گیا ۔۔زرینہ اللہ ہے نا ۔۔میں نے اسکے سرپہ ہاتھ رکھا۔۔ہاں بیٹا ہم تو اسکی رضا میں راضی ہیں ۔۔انسان ہیں نا ۔۔اسلئے رو لیتے ہیں ۔۔میں نے اسکو تسلیاں دیں ہمت بندھائی ۔۔ وہ زندگی کی گاڑی میں پھر سے جت گئی ۔۔لیکن بہت کمزور ہوتی جا رہی تھی ۔۔جلدی تھک جاتی ۔۔بیشتر کام چھوٹ چکا تھا ۔۔لیکن اسکے یقین اور سکون میں کوئی کمی نا آئی تھی ۔۔وہ آہستہ آہستہ بستر سے لگ گئی ۔۔بیٹے کمانے کے قابل ہوچکے تھے اس لیے معاشی طور پر کافی بے فکری تھی ۔۔ایک دن اچانک اسکے مرنے کی خبر آئی ۔۔میں اسکے گھر پہنچی تو میت تیار تھی۔۔اسکے چہرے کا سکون قابل دید تھا ۔۔اس پہ موت کی سختی کی بجائے بے فکر سی مسکراہٹ تھی ۔۔اس نے زندگی کی سختیاں جھیلیں تھیں اسلیئے اللہ نے موت کی سختی آسان کردی تھی ۔۔شائد آسانیاں اور سختیاں دونوں کوٹے سے ملتے ہیں ۔۔زرینہ خوش قسمت تھی اس نے زندگی کو سہا تھا۔۔
میرا دل چاہا میں زرینہ سے قبر کی سختی اور آخرت کے بارے میں اسکا خوف پوچھوں ۔۔لیکن مجھے یقین ہے وہ کہے گی بیٹا اللہ ہے نا۔۔
ایسے ہی مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن زرینہ جنت میں داخل ہورہی ہوگی اور سارے عالم مولوی زرینہ کے پیچھے چل رہے ہونگے۔۔

Sunday 17 August 2014

حسن نثار کے نام

زیتون بی بی

پیارے بیٹے دانشور ۔۔۔
کہو کیسے ہو ؟زندہ ہی نہیں ہٹے کٹے بھی ہو۔۔۔خیر سے تمھارے کالمو ں سے پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔کبھی کبھار کسی ٹاک شو میں بھی دکھائی پڑجاتے ہو۔۔۔وہاں سے بھی تمھاری صحت جسمانی وزبانی کا پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔خیر خوش رہو ۔آباد رہو۔۔۔بھئی ایک زمانہ تمھاری سچ بیا نی کا معترف ہے ۔۔ہم بوڑھوں کو یہ کیسی ہی نا گوار خاطرہو پر بھلا ہو اس نو جوان نسل کا ۔۔جس کو سچائی بھی تھرل لگتی ہے ۔۔اکثر تو تمہیں مسیحا ہی سمجھتے ہیں مسیحا بھی کوئی ایسا ویسا؟کیامہا رت سے نشتر چلاتے ہو۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کبھی تو لیہ تو کبھی قینچی پیٹ میں ہی بھول جاتے ھو۔۔آپر یشن تو کا میا ب ہو جاتا ہے ۔۔لیکن مریض،مرض سے نہیں انفیکشن سے مر جا تا ہے۔۔۔
اب تو میڈیا کی آزادی کا دور ہے ۔۔اب کوئی مر کر گرے یا گر کر مرے۔۔خبر بن جاتی ہے ۔۔بلکہ خبر بنا نے کے لئے دھکا بھی خود ہی دے دیا جاتا ہے۔۔ 
خیر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میڈیا ہی کی بدولت ہر چپڑقنا تیے کو نوکری ملی ہوئی ہے ۔۔اب شادی سے بر بادی تک سارے معاملات مارننگ شوز میں ہی طے ہو جاتے ہیں۔۔
جس کچر کچر پہ مائیں جو تے ما را کرتی تھیں اب وہ مارننگ شو ز کی ضما نت سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ارے ہاں تم نے رمضان میں کوئی شو کیوں نہی پکڑا؟کیا لش پش کرتے کُرتے نہیں تھے ؟ارے منگنی کے کھسے اور شادی کی شیروانی ہی پہن لیتے ۔۔اور رکھ لیتے ساتھ کسی حسینہ دلربا کو۔وہ دھاروں دھار روتی تم ڈبڈباتی آنکھوں سے اس کو دیکھتے،اور کہتے کہ او نیک بخت ایسے تو تُو باپ کے مرنے پہ بھی نہ روئی تھی۔جو ایک وقت کے فاقہ زدہ بچے کو لیکر آنسووں کے دریا بہا رہی ہے ۔۔
خدا جھوٹ نا بلوائے ۔ہر ملا ء ہر مفتی کی عید پورے رمضا ن ہوتی رہی ۔۔اب تو ماشا ء اللہ ایسے ایسے خوش شکل مولوی آگئے ہیں کے انہیں دیکھ کر بہت سی حسیناوءں کے منہ میں پانی آجاتا ہے ۔۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اپنے قومی چینل پہ جگن کے ساتھ ایک انتہا ئی خوش شکل نعت خواں آنکھیں بند کر کے اپنی پرسوز آوازمیں نعت پڑھ 
رہا تھا۔ہا ئے بے چاری جگن ۔۔ اسکی ندیدی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔۔ہچکیاں بندھ گئی تھی ۔۔۔کہ شائد ہچکیوں کی 
ٓآواز سے ہی آنکھیں کھول دے۔۔بے چارہ ینگ اور اسمارٹ نعت خواں اسی خوف سے آنکھیں بند کر کے پوری نعت پڑھتا گیا۔۔
جگن کے سارے آنسو بے کار گئے۔۔
خیرچھوڑو۔۔تم نے ٹاک شوزمیں آنا کاہے کو چھوڑدیا؟ویسے تومجھے یہ ٹاک شوزسے زیادہ مرغوں اورکتوں کی لڑائی لگتی ہے۔۔اور کبھی کبھی سانپ اور نیولے کی ۔۔جس میں سانپ مرے یا نیولا جیت چینل کی ہوتی ہے۔۔
اور ہاں بھئی دانشور
مجھے تمہاری امریکہ داری بڑی اچھی لگتی ہے۔۔ہیں تو سب ہی اس زلف گرہ گیر کے اسیر۔۔مانتا کوئی نہیں ۔۔مانے بھی کیسے؟میں تو کہتی
ہوں اگر امریکہ نہ ہوتا تو ہماری آدھی مذہبی و سیاسی جماعتیں پیدا ہی نہ ہوتیں ۔ باقی آدھی بھوکی مر جاتیں۔۔کچھ بھی کہو امریکہ بری طرح
ہماری زندگیوں میں دخیل ہے۔۔سیا ست سے صحا فت تک۔ناسا سے کاسہ تک۔۔جنگ سے امن تک(کیونکہ دونوں کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔)امریکہ کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔کل ہی ایک بچہ مجھے بتا رہا تھا کہ ا سکی تو لولائف میں تک امریکہ گھس آیا تھا ۔۔اگریہ امریکہ نا ہو تا تو موٹی موٹی آنکھو ں والی حسینہ خود بھی کافی موٹی ہوسین کر اسکے بچوں کی ماں بن چکی ہوتی۔ہائے یہ امریکہ ہی تو ہے جسکی وجہ سے حسینہ کی آنکھوں میںآج بھی کشش ہے۔جدائی کے زخم آج بھی ٹیسیں دیتے ہیں۔آج بھی ناسٹلجیا ء لا ہور کی حبس زدہ گرم دوپہروں میں رومانس میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔وہ خط جو پہلی بار لکھا گیا ۔۔جس کا کوئی حرف یاد نہیں ۔گورئمنٹ کا لج کا یہ نوجوان تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ خط انگریزی میں تھا یا اردو میں۔۔بس یہ امریکہ کا کلائڈو اسکوپ ہے جو سارے رومانس کو خوبصورت پیٹرن دیتا ہے ۔۔ٹوٹی ہوئی چوڑی کے رنگین ٹکڑے حقیقت کی ہتھیلی پہ رکھتے ہی بے وقعت ہوجاتے ہیں۔۔
بس ایسے ہی ہمارے بہت سارے لوگوں کا قد امریکہ کی وجہ سے چھ فٹا ہے۔یہ سب کیکر ،تھوہر امریکہ کی اسپانسر شپ سے ہماری زرخیز زمین میں کاشت ہو تے ہیں۔
ہاں تمہارے شہر کا کیا حال ہے؟کراچی کے فلیٹ میں بیٹھ کر چشم تصور سے تمھارا شہر دیکھتی ہوں۔دعاء کرتی ہوں کہ وہ سرسبز وشاداب رہے۔۔کراچی میں تو اب صرف دہشت اگتی ہے۔رہ زن،رہبر۔سب ایک ہی صف میں آگئے ہیں۔۔ظالموں کی صف میں۔۔خیر کس کس کا ماتم کریں؟تیمورکے گھر سے غیرت رخصت ہوئی تو اقبال نے اسکا نوحہ کہا تھا۔اس قوم کا نوحہ گر بھی کسی نہ کسی چینل پہ بیٹھا غیرت کے نقصانات اور بے غیرتی کے فوائد سمجھا رہا ہو تا ہے۔۔ریمنڈڈیوس سے ڈالر وصول کرنے ہوں یا ٹی وی پے اپنے فا قوں کی داستان سنانی ہو۔۔ہم کہاں سے غیرت مند قوم ہیں ؟کبھی کبھی تو سنجیدگی سے خود کشی کے بارے میں سو چتی ہوں۔۔لیکن کم سے کم ۱۰۰ زندگیاں چاہیے ۔قربان کرنے کے لیے۔۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم بنی اسرئیل ہیں۔۔اتنے ہی ظالم ایسے ہی نا شکرے۔۔ہمیں بھی اللہ کے چہیتے ہونے کے زعم نے کہیں کا نا چھوڑا۔۔جو ظلم ہمارے ہاں رواۂے ۔دل کرتا ہے چہرے مسخ ہونے کی بد دعا دوں،پھر سو چتی ہوں کیا ضرورت ہے؟
آہ ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک پہ چڑیلوں اور چمگاڈروں کی حکومت ہے۔۔پچھل پیری حکومتیں کتنے لوگوں کا خون چوسیں گی؟کل ائرپورٹ جاتے ہو ئے ایک شہید کی تصویر پر نظر پڑی ۔۔دل جیسے منہ کو آگیا ۔۔کیا خوبصورت جوان تھا۔۔اسکی آنکھوں میں کیسی چمک تھی۔۔سیاست کی اندھی چمگاڈر نے اسکا بھی خون چوس لیا ۔۔دل جیسے اسکی ماں کے سامنے چلا گیا۔۔اسکی ماں،اسکے بچوں کی ماں۔۔کتنے آنسو چاہیے ؟تو ہی پو چھ کے بتادے ۔۔میرا وعدہ ہے ہم مائیں اتنا روئیں گیاور اس وقت روئیں گی جب تک اس ملک کے گناہ دھل نہ جائیں۔۔
آج دل بڑا اداس تھا ۔تیری چا چی کو ای میل ،شی میل تو آتی نہیں۔۔اس لیئے خط لکھ رہی ہوں ۔۔بہو کو پیار دینا ۔۔اس غریب کا حوصلہ ہے جو تیرے ساتھ گزارہ کر رہی ہے ۔۔بچوں کو بہت پیار ۔۔۔
تیری چاچی۔۔۔
زیتون بی بی

Thursday 7 August 2014


چیکو کا درخت
زیتون بی بی

اس نے پیار سے چیکو پہ ہاتھ پھیرا ۔۔ چیکو کی شاخیں خو شی سے جھو منے لگیں۔۔۔اب اس درخت پہ جا بجا پھل لگے تھے ۔ ۔۔کیسی خوشی ہو تی ہے اپنے لگا ئے ہو ئے درختوں پر پھل دیکھنے کی ۔۔یہ کوئی اس سے پو چھے ۔۔پھر چیکو سے اس کا عجیب رشتہ تھا ۔۔رازداری کا ۔۔جب اس نے چیکو کا پو دا لگا یا تھا تو سب نے یہ کہا تھا کہ چیکو بہت دیر میں بڑھتا ہے ۔۔ اس نے چیکو کو کہا کہ دیکھوتمہیں بہت جلد سایہ دار درخت بننا ہے۔ یہ وہی تا ریخ تھی جب وہ اس سے جدا ہوئی تھی ۔۔۔محبت کیا ہو تی ہے اسکو پتا ہی نہیں تھا۔۔وہ جب جب اسکی تعریف کر تا تو وہ سو چتی ۔۔ اچھا تو یہ ہوتی ہے احمقا نہ محبت ۔۔۔لو بھلا تعریف تو میری دس ہزار لوگ کرتے ھیں ۔۔آ نکھیں اچھی ہیں ۔۔۔ہونٹ رسیلے ہیں ۔۔۔ذہین ہوں تو یہ سب اللہ کی دین ہے ۔۔
اچھا فر ض کرو مجھ میں کوئی خوبی نہ رہے ۔۔پھر؟محبت ختم ۔؟ فنشڈ؟ وہ غصے سے اسکی طرف دیکھتا۔۔نہیں بتاؤ کہا ں جائے گی وہ ؟ میری کان ،ناک ،آ نکھ کی محبت ؟ دفع ہو تم ۔۔۔ وہ غصے سے کہتا۔۔۔وہ کھلکھلا کے ہنستی ۔۔۔بھئی زیادہ سے زیا دہ یہ ہو سکتا ہے کہ میں تمھیں اچھی لگتی ہوں۔۔ اور وہ میں بہت سارے لو گوں کو لگتی ہوں گی ۔۔ 
وہ کہتا ابھی تمہیں نہیں پتا ۔۔ ایک دن پتا چلے گا ۔۔۔اس دن تم بہت روؤ گی ۔۔ لو بھلا میں کیوں رونے لگی ۔۔۔وہ حیرت سے سو چتی ۔۔زیادہ سے زیادہ میں یہ تسلیم کر لوں گی کہ یہ ناک کان آ نکھ ہی محبت کی وجہ ہیں۔۔۔۔ لیکن روؤں گی کیوں ؟۔
’’ اس لیے کہ اس دن تمہیں پتا چلے گا کہ کسی محبت کرنے والے کا جدا ہو نا کیا ہو تا ہے‘‘ ۔۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن محبت کرنے والا جدا تو ہو ۔۔۔ وہ ہنس کر کہتی ۔۔
پھر ایک دن وہ محبت کرنے والا بہت دور چلا گیا ۔۔۔
وہ ہنستے ہوئے رو تی ، اور روتے ہوئے ہنستی ۔۔
ارے بھئی تم تو کمال کے نجو می نکلے ۔۔۔
اب مجھے پتا چلا کہ آ نکھ ،کان ،ناک کی محبت کیا ہوتی ہے ؟ 
یہ سب تو صرف راستے ہیں ۔۔
سارا دن باؤلی بنی گھو متی ۔۔۔۔
دن بے زاری سے گذرتے ۔۔
پھر ایک دن اس نے سو چا کہ حساب کتاب تو ہو جدائی کا ۔۔
اس نے گھر کی سو نی کیاری میں چیکو کا پودا لگایا ۔۔جدائی کے پورے ایک ہفتے بعد ۔۔
اب وہ دل و جان سے ا س کاخیال رکھتی۔۔
چیکو نے نئی مٹی کو اپنا لیا تھا۔
وہ رازداری سے کہتی ؛دیکھو تمھیں صرف بڑا ہونا ہے ۔۔۔
پھل نہیں دینا ۔۔۔
پھل تم اس وقت دو گے جب وہ لوٹ کر آئے گا۔۔
چیکو نے بات مان لی ۔۔
اسکا سایا گھنا ہوتا گیا۔۔
شاخیں پورے میں پھیل گئیں۔۔
لیکن اس پہ پھول تو آتے پھل نہیں ۔۔
پھل آنے سے پہلے ہی جھڑ جا تے۔۔
گھر والے چیکو کو برا بھلا کہتے۔۔
لیکن یہ بات تو صرف وہ جانتی تھی۔۔
چیکو تو صر ف وعدہ نبھا رہا تھا ۔۔
تنہائی اب اس کے لئے بھی تکلیف دہ ہوتی جا رہی تھی۔۔
وہ ایک وعد ے کا بوجھ اٹھا تے اٹھاتے تھک گئی تھی۔۔
لیکن سبق سکھا نے والے نے اس کو پورا سبق سکھانے کی ٹھانی تھی ۔۔
کوئی خیر خبر نہیں تھی ۔۔
اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ا س کی حسسیات بہت تیز ہوگئیں۔۔
جہاں ساری ٹیکنالوجی فیل ہو جاتی ہے وہاں ایک رشتہ سب سے گہرا ہو جا تا ہے۔۔
جو کبھی خواب سے تو کبھی خیال سے خبر دیتا ہے ۔۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ چیکو رو رہا ہے ۔۔
اسکی شاخیں اسکے جسم سے لپٹی ہوئی ہیں۔۔
وہ کہہ رہا ہے ۔۔میری مٹھاس میرے پھلوں کا انتظار کر رہی ہے ،،
تم نے مجھے وعدے کا پابند کر کے بانجھ کر دیا ہے،،
جو وعدہ کسی کو بانجھ کردے وہ کیسے پایئدار ہو سکتا ہے ؟،،
دوسری صبح اس نے چیکو کو وعدے سے آزاد کر دیا ۔۔۔
اور خود کو بھی۔۔۔