Sunday 17 August 2014

حسن نثار کے نام

زیتون بی بی

پیارے بیٹے دانشور ۔۔۔
کہو کیسے ہو ؟زندہ ہی نہیں ہٹے کٹے بھی ہو۔۔۔خیر سے تمھارے کالمو ں سے پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔کبھی کبھار کسی ٹاک شو میں بھی دکھائی پڑجاتے ہو۔۔۔وہاں سے بھی تمھاری صحت جسمانی وزبانی کا پتا چلتا رہتا ہے ۔۔۔خیر خوش رہو ۔آباد رہو۔۔۔بھئی ایک زمانہ تمھاری سچ بیا نی کا معترف ہے ۔۔ہم بوڑھوں کو یہ کیسی ہی نا گوار خاطرہو پر بھلا ہو اس نو جوان نسل کا ۔۔جس کو سچائی بھی تھرل لگتی ہے ۔۔اکثر تو تمہیں مسیحا ہی سمجھتے ہیں مسیحا بھی کوئی ایسا ویسا؟کیامہا رت سے نشتر چلاتے ہو۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کبھی تو لیہ تو کبھی قینچی پیٹ میں ہی بھول جاتے ھو۔۔آپر یشن تو کا میا ب ہو جاتا ہے ۔۔لیکن مریض،مرض سے نہیں انفیکشن سے مر جا تا ہے۔۔۔
اب تو میڈیا کی آزادی کا دور ہے ۔۔اب کوئی مر کر گرے یا گر کر مرے۔۔خبر بن جاتی ہے ۔۔بلکہ خبر بنا نے کے لئے دھکا بھی خود ہی دے دیا جاتا ہے۔۔ 
خیر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میڈیا ہی کی بدولت ہر چپڑقنا تیے کو نوکری ملی ہوئی ہے ۔۔اب شادی سے بر بادی تک سارے معاملات مارننگ شوز میں ہی طے ہو جاتے ہیں۔۔
جس کچر کچر پہ مائیں جو تے ما را کرتی تھیں اب وہ مارننگ شو ز کی ضما نت سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ارے ہاں تم نے رمضان میں کوئی شو کیوں نہی پکڑا؟کیا لش پش کرتے کُرتے نہیں تھے ؟ارے منگنی کے کھسے اور شادی کی شیروانی ہی پہن لیتے ۔۔اور رکھ لیتے ساتھ کسی حسینہ دلربا کو۔وہ دھاروں دھار روتی تم ڈبڈباتی آنکھوں سے اس کو دیکھتے،اور کہتے کہ او نیک بخت ایسے تو تُو باپ کے مرنے پہ بھی نہ روئی تھی۔جو ایک وقت کے فاقہ زدہ بچے کو لیکر آنسووں کے دریا بہا رہی ہے ۔۔
خدا جھوٹ نا بلوائے ۔ہر ملا ء ہر مفتی کی عید پورے رمضا ن ہوتی رہی ۔۔اب تو ماشا ء اللہ ایسے ایسے خوش شکل مولوی آگئے ہیں کے انہیں دیکھ کر بہت سی حسیناوءں کے منہ میں پانی آجاتا ہے ۔۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اپنے قومی چینل پہ جگن کے ساتھ ایک انتہا ئی خوش شکل نعت خواں آنکھیں بند کر کے اپنی پرسوز آوازمیں نعت پڑھ 
رہا تھا۔ہا ئے بے چاری جگن ۔۔ اسکی ندیدی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔۔ہچکیاں بندھ گئی تھی ۔۔۔کہ شائد ہچکیوں کی 
ٓآواز سے ہی آنکھیں کھول دے۔۔بے چارہ ینگ اور اسمارٹ نعت خواں اسی خوف سے آنکھیں بند کر کے پوری نعت پڑھتا گیا۔۔
جگن کے سارے آنسو بے کار گئے۔۔
خیرچھوڑو۔۔تم نے ٹاک شوزمیں آنا کاہے کو چھوڑدیا؟ویسے تومجھے یہ ٹاک شوزسے زیادہ مرغوں اورکتوں کی لڑائی لگتی ہے۔۔اور کبھی کبھی سانپ اور نیولے کی ۔۔جس میں سانپ مرے یا نیولا جیت چینل کی ہوتی ہے۔۔
اور ہاں بھئی دانشور
مجھے تمہاری امریکہ داری بڑی اچھی لگتی ہے۔۔ہیں تو سب ہی اس زلف گرہ گیر کے اسیر۔۔مانتا کوئی نہیں ۔۔مانے بھی کیسے؟میں تو کہتی
ہوں اگر امریکہ نہ ہوتا تو ہماری آدھی مذہبی و سیاسی جماعتیں پیدا ہی نہ ہوتیں ۔ باقی آدھی بھوکی مر جاتیں۔۔کچھ بھی کہو امریکہ بری طرح
ہماری زندگیوں میں دخیل ہے۔۔سیا ست سے صحا فت تک۔ناسا سے کاسہ تک۔۔جنگ سے امن تک(کیونکہ دونوں کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔)امریکہ کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔کل ہی ایک بچہ مجھے بتا رہا تھا کہ ا سکی تو لولائف میں تک امریکہ گھس آیا تھا ۔۔اگریہ امریکہ نا ہو تا تو موٹی موٹی آنکھو ں والی حسینہ خود بھی کافی موٹی ہوسین کر اسکے بچوں کی ماں بن چکی ہوتی۔ہائے یہ امریکہ ہی تو ہے جسکی وجہ سے حسینہ کی آنکھوں میںآج بھی کشش ہے۔جدائی کے زخم آج بھی ٹیسیں دیتے ہیں۔آج بھی ناسٹلجیا ء لا ہور کی حبس زدہ گرم دوپہروں میں رومانس میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔وہ خط جو پہلی بار لکھا گیا ۔۔جس کا کوئی حرف یاد نہیں ۔گورئمنٹ کا لج کا یہ نوجوان تو یہ بھی بھول گیا ہے کہ خط انگریزی میں تھا یا اردو میں۔۔بس یہ امریکہ کا کلائڈو اسکوپ ہے جو سارے رومانس کو خوبصورت پیٹرن دیتا ہے ۔۔ٹوٹی ہوئی چوڑی کے رنگین ٹکڑے حقیقت کی ہتھیلی پہ رکھتے ہی بے وقعت ہوجاتے ہیں۔۔
بس ایسے ہی ہمارے بہت سارے لوگوں کا قد امریکہ کی وجہ سے چھ فٹا ہے۔یہ سب کیکر ،تھوہر امریکہ کی اسپانسر شپ سے ہماری زرخیز زمین میں کاشت ہو تے ہیں۔
ہاں تمہارے شہر کا کیا حال ہے؟کراچی کے فلیٹ میں بیٹھ کر چشم تصور سے تمھارا شہر دیکھتی ہوں۔دعاء کرتی ہوں کہ وہ سرسبز وشاداب رہے۔۔کراچی میں تو اب صرف دہشت اگتی ہے۔رہ زن،رہبر۔سب ایک ہی صف میں آگئے ہیں۔۔ظالموں کی صف میں۔۔خیر کس کس کا ماتم کریں؟تیمورکے گھر سے غیرت رخصت ہوئی تو اقبال نے اسکا نوحہ کہا تھا۔اس قوم کا نوحہ گر بھی کسی نہ کسی چینل پہ بیٹھا غیرت کے نقصانات اور بے غیرتی کے فوائد سمجھا رہا ہو تا ہے۔۔ریمنڈڈیوس سے ڈالر وصول کرنے ہوں یا ٹی وی پے اپنے فا قوں کی داستان سنانی ہو۔۔ہم کہاں سے غیرت مند قوم ہیں ؟کبھی کبھی تو سنجیدگی سے خود کشی کے بارے میں سو چتی ہوں۔۔لیکن کم سے کم ۱۰۰ زندگیاں چاہیے ۔قربان کرنے کے لیے۔۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم بنی اسرئیل ہیں۔۔اتنے ہی ظالم ایسے ہی نا شکرے۔۔ہمیں بھی اللہ کے چہیتے ہونے کے زعم نے کہیں کا نا چھوڑا۔۔جو ظلم ہمارے ہاں رواۂے ۔دل کرتا ہے چہرے مسخ ہونے کی بد دعا دوں،پھر سو چتی ہوں کیا ضرورت ہے؟
آہ ایسا لگتا ہے جیسے اس ملک پہ چڑیلوں اور چمگاڈروں کی حکومت ہے۔۔پچھل پیری حکومتیں کتنے لوگوں کا خون چوسیں گی؟کل ائرپورٹ جاتے ہو ئے ایک شہید کی تصویر پر نظر پڑی ۔۔دل جیسے منہ کو آگیا ۔۔کیا خوبصورت جوان تھا۔۔اسکی آنکھوں میں کیسی چمک تھی۔۔سیاست کی اندھی چمگاڈر نے اسکا بھی خون چوس لیا ۔۔دل جیسے اسکی ماں کے سامنے چلا گیا۔۔اسکی ماں،اسکے بچوں کی ماں۔۔کتنے آنسو چاہیے ؟تو ہی پو چھ کے بتادے ۔۔میرا وعدہ ہے ہم مائیں اتنا روئیں گیاور اس وقت روئیں گی جب تک اس ملک کے گناہ دھل نہ جائیں۔۔
آج دل بڑا اداس تھا ۔تیری چا چی کو ای میل ،شی میل تو آتی نہیں۔۔اس لیئے خط لکھ رہی ہوں ۔۔بہو کو پیار دینا ۔۔اس غریب کا حوصلہ ہے جو تیرے ساتھ گزارہ کر رہی ہے ۔۔بچوں کو بہت پیار ۔۔۔
تیری چاچی۔۔۔
زیتون بی بی

2 comments:

  1. بہت خوب . . .دلچشپ انداز اور کھری کھری

    ReplyDelete