Wednesday 3 December 2014


الم تر کیف
زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)
،اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ مستقل بوجه ڈهونے،تابعداری دکهانےاور
بندهے رہنے کے باعث وہ ان حالوں کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ما لک اسے کسی چهوٹے پتهر یا سوکهی ٹہنی س بهی بانده دے تو وہ یہی سمجهتا ہےکہ بہت مضبوطی سے بنده ہوا ہے..لاکه زور لگائےاور بلبلائےرسی نہی تڑا سکتا.،،


یوسفی صاحب کی اس بات کی تصدیق کے لئے پوری قوم کو بل عموم اور کراچی والوں کو بل خصوص پش کیا جاسکتا ہے..
ہم ایسی ہی اونٹ قوم ہیں ...ہمارے سوار تو بدل جاتے ہیں لیکن قسمت نہیں..
ہم کراچی والوں نے تو پچیس سال سے سوار اور خوف کی ڈبل سواری کا مزا چکها ہے..سوار کے چہرے بے شک بدلتے رہے ..کبهی کچه گهڑی کو سوار نے تو سستا بهی لیا لیکں خوف و دہشت پیر تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں اور پیٹ پر سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتے تهے..ہم خوف کهاتے ،.دہشت اوڑهتے اور دوسری صبح خوف کے ساته ہی بیدار ہوتے...ہر صبح ہم سورج کی طرف امید سے زیادہ تشویش سے دیکهتے....اسی خوف میں ایک نسل پیدا بهی ہوئ اور بڑی بهی ہوگئ..کراچی ایک کبڑے کی طرح اپنے دکه سے بیزار لیکن اسکو اٹهائے پهرنے پر مجبور تها..بہت سارے لوگ مسیحا بن کر اتے اور اس شہر کو اپنانے کا نعرہ مستانہ لگاتے اور گم ہوجاتے..کبڑے کا کب بدنما ہی نہیں بدبودار بهی ہوتا جا رہاتها ..ہم نے اس کو اپنا مقدر سمجه لیا تها ..
اور تها بهی ....ہمارے اندر بزدلی ہر روز انجیکٹ کی جاتی .اور ہم خوف کے نشے سےاپنی زندگیوں کو اپنی آنکهوں کے سامنے قتل ہوتے دیکهتے .جیسے یہ ہمارے نہیں کسی اور کے ساته ہورہا ہو ..
کہتے ہیں ہر ویرانہ کبهی ناکبهی شہر ہوتا ہے .....ہمارا شہر بهی ویرانہ تها ..ہم نے یہاں دہشت کو دندناتے اور زندگی کو ننگے پاوں دوڑتے دیکها ہے .ہماری آنکهوں نے چمگاڈر کی شکلوں کو اسکول کالج اور یونی ورسٹیوں میں خون پیتے دیکها ہے ..ہم نے ہر دن موت کو فاتح دیکها ہے .
ہم نے دہشت کو گهروں میں کودتے اور موت کو دستک دیتے سنا ہے ..
..لیکن خاردار جهاڑیوں کے درمیان بغاوت کا بیج بو دیا گیا ..ایک آواز جو کهوکهلی نہین تهی .جو غیرت کی آواز تهی .جو زندگی سے بهرپور تهی اسنے نئ نسل کی کان میں بغاوت کئ ازان دی ..وہ آواز صبح کے چہرے کی پہلی
کرن تهی ..ویرانے میں ازان کی طرح..ہم نے چپکے چپکے بغاوت کو پالا ..مجهے کبهی کبهی فرعون کے محل میں حضرت موسی کی پرورش یاد
آجاتی ..ہر دور کے موسی فرعونوں ہی کے محل میں اسی کے زیر سایہ ..
پروان چڑهتے ہیں ..ہماری نسل بهی ایسے ہی پروان چڑهی ..
جو لوگ کراچی سے تعلق نہیں رکهتے وہ کبهی بهی ہمارے خوف اور دکه خا اندازہ نہیں لگا سکتے ...وہ ہماری ماوں کی آنکهوں کی اس مایوسی اور خوف کا تصور نہیں کر سکتے جو ہمیں گهر سے باہر جاتا ہوا دیکهکر ہوتی تهی.بچے صحیح سلامت گهر آجائیں تو اس میں مسرت سے زیادہ حیرت ہوتی..
ہم رنگ برنگے سرخ سبز انقلابوں کی بس آیا ہی چاہتی کی بریکنگ نیوز سے متلا چکے تهے ....ایسے ہر چہرے پر کمپرومائز لکها صاف نظر آتا .جس سے ہمیں نفرت ہو چکی تهی ..
ہم نے ابابیلیں بننے کا فیصلہ کر لیا ...اپنی چونچوں میں بغاوت کی کنکریاں جمع کرتے رہے....
پچیس دسمبر ...
کراچی کی پچیس سالہ تاریخ کی سب سے باغی صبح تهی ..
خان کا کراچی میں پہلا جلسہ اور ہماری آخری امید ...ابابیلوں کے دل دهڑ دهڑ دهڑک رہے تهے...یہ اگر ناکام ہوجاتا تو ہمیں مزید پچیس سال اس منحوس خوف کو جهیلنا ہوتا ..
ہماری آزمائش ختم ہو گئ تهی ..
خوف کے بت میں پہلی دراڑ پڑ چکی تهی..
ہم اسی دن جیت گئے تهے ..ہم نے خوف کوپہلے دل سے نکالا تها .پهر شہر سے..
قوموں کی تاریخ میں لمحے صدیوں پر بهاری ہوتے ہیں .جس لمحے وہ فیصلہ کرتی ہیں وہی انکی قسمت بن جاتا ہے ..
تیس نومبر ایسا ہی دن ..
جسکو کهڑا ہونا تها وہ کهڑا ہوا ہے..
جس نے عزت سے جینے کا فیصلہ کرنا تها اس نے ثابت کر دیا ہے.
باقی قوم کا مسئلہ ہے وہ اونٹ ثابت ہوتی ہے یا غیرت مند انسان ..

1 comment:

  1. لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی والا کہیں اور رہ بھی نہیں سکتا پاکستان میں کسی جگہ بھی ہو کچھ عرصے بعد کوہ ندا کی صدا پر چل پڑنے والے شخص کی طرح وہیں واپس چل پڑتا ھے

    ReplyDelete