Monday 10 November 2014


ماموں کی شادی
عالیہ ممتاز

چھوٹے ماموں دلہا بنے شرمارہے تھے ،پہلو میں بیٹھی مامی گھبرائی گھبرائی سی لگ رہی تھیں۔ہم بھونڈی آوازوں میں بے سرے گیت گا رہے تھے مگر لوگ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔اس تقریب عجیب وسعیدمیں صرف ماموں اور نئی نسل ہی خوش تھے ،خاندان بھر کی بوڑھی سہاگنوں نے اپنے بوڑھے سہاگوں کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ،بوڑھے سہاگ سلیف کانفیڈنس کی انتہاوں پہ تھے ،سہاگنوں کا رنگ تھا کہ اڑا جارہا تھا۔
ماموں کی شادی ایسا ہی واقعہ تھی کہ خاندان بھر نے پہلے حیرت پھر صدمے سے یہ خبر سنی ۔یہ نہ تو کم عمری کا فیصلہ تھی نہ ناتجربہ کاری کی لو میرج ۔
ماموں ماشاللہ نانا دادا بن چکے تھے ،ہماری پہلی مامی کینسر کا شکار ہو کر اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں ۔ماموں کو ان سے شدید محبت تھی ،اتنی شدید کہ سب کو یقین تھا کہ اگر مامی کو کچھ ہوا تو ماموں بھی جان دیدیں گے ۔ماموں نے ساری عمر مامی کوسر آنکھوں پے رکھاتھا۔خاندان بھر میں وہ زن مرید مشہور تھے ۔خلق خدا غائبانہ ہی نہیں منہ پہ بھی یہی کہتی تھی لیکن ماموں کے جذبہ محبت میں کوئی کمی نا آئی بلکہ یہ محبت تو پرانی شراب تھی،گہری اور نشہ آور ۔ہم تو ہمیشہ کے منہ پھٹ اور بد تمیز تھے اس لیے اکثر منہ کھول کر کہہ دیا کرتے کہ ماموں جیسی خدمت آپ مامی کی کرتے ہیں ایسی ماں باپ کی کی ہوتی تو آپ پہ جنت واجب ہوجاتی ،لیکن ماموں ہمیں برا بھلا کہہ کر نئی انرجی کے ساتھ مامی کی خدمت میں جت جاتے ،وہ مامی کے ماتھے کی شکن اپنے دل پہ ڈال لیا کرتے تھے ،ویسے بھی مامی بڑی نیک صفت عورت تھیں ۔انکی ذات سے کم ہی کسی کو تکلیف پہنچی تھی ۔
ایک دن یہ اندوہناک خبر ملی کہ مامی کو آ نتوں کا کینسر ہوگیا ہے جو بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ہائے دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ماموں کو تو جیسے کسی نے کھڑے کھڑے پھانسی کا حکم سنا دیا ہو۔ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنی جان نکال کے مامی میں ڈال دیں۔ہم سب انکی ذہنی حالت سمجھتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ مامی سحت یاب ہو جائیں ۔سچ ہے ماموں خدمت کا حق ادا کر رہے تھے ۔یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے بہت ساری صحت مند بیویوں کے بڑے بے زار شوہر دیکھیے ہیں ،لیکن ماموں مامی کے مزاج کی تلخی کو بھی بڑی خوشدلی سے برداشت کر رہے تھے ۔ ادھر گھریلوامور بری طرح متاثر ہورہے تھے۔سچ ہے کہ بندہ موت سے توایک ہی بار مرتا ہے لیکن بے اعتنائی اور بے حسی انسان کوبار بار مارتی ہے ۔مامی کی بیماری جیسے جیسے بڑھتی جارہی تھی،ارد گرد کے لوگوں کی بے زاری بڑھتی جارہی تھی۔شائد یہ بھی کینسر کی کوئی قسم ہو ،لا علاج اور تکلیف دہ ۔۔
ٓآدمی ہر رشتے کی سرد مہری برداشت کر سکتا ہے لیکن شاید اولاد کی نہیں ۔اس کویقین ہی نہیں آتا کہ جس کو اس نے راتوں کو جاگ جاگ کر کر پالا ہے آج ان کے دن کا کوئی پہربھی اس کے لئے نہیں ہے ۔۔مال اور اولاد بڑی آزمائش ہیں ، اللہ کے اس فرمان پہ یقین بھی اس وقت آتا ہے جب بے یقینی بڑھنے لگتی ہے جس خود غرضی سے اس نے دوسروں کے نوالے چھین کر اپنی اولاد کے منہ میں ڈالے ہوتے ہیں آج انکو ہی ماں باپ کی بھوک نظر نہیںآتی ۔بے شک موت سارے پردے اٹھادیتی ہے ۔مامی نے ایک ایک کر کے سارے پردے اٹھتے ہوئے دیکھے تھے ۔بہن بھائیوں اور اولاد کی خود غرضی نے انکے موت کی طرف بھاگتے قدم اور تیز کر دئیے ۔ایسا لگتا تھا جیسے انھوں نے جان بوجھ کر زندگی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہوں ۔جیسے زندگی اپنی تمام تر سفاکی اور گھناونے پن کے ساتھ انکے سامنے برہنہ ہوگئی ہواور پھر ایک صبح نیک صفت ،باحیامامی نے آنکھیں بند کرلیں ۔
بڑا ہی سخت دن تھا ۔اتنا سخت کے کہ مجھے لگا کہ اسکو کاٹنے کی کوشش میں میرے ہاتھ زخمی ہو جائیں گے۔تو یہ ہے وہ زندگی ؟میں ایک کونے میں خشک آنکھوں اور سخت دل کے ساتھ بیٹھی سوچ رہی تھی ۔کتنی بھرپور تھی اس عورت کی زندگی ،بے انتہا محبت کرنے والا شوہر ،لوگ بھلے ہی زن مرید کہیں ایک عورت کے لیئے اسکا سب سے بڑا فخر اسکا شوھر ہی ہوتا ہے ۔ایسا شوہر جس نے اعلی عہدے اور بے انتہا ء خوبصورت ہونے کے باوجود کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہو۔بیٹے ،بیٹیاں سب کس قدر غمگین ہیں ۔کسی کے معمولات میں کسی ردوبدل کی گنجائش نہیں ۔کیا کریں ،سب کی اپنی زندگی ہے ۔اب کیا کوئی جینا چھوڑ دے ۔میرا دل چاہا سب سے کہوں ،کسی لمحے ،کسی پہر ،چلو سال میں ایک دفعہ ہی سہی جینا چھوڑدو ،پھر دیکھو کیسے کیسے تماشے ہوتے ہیں ۔کیسی کیسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں ۔مامی نے بھی بہت پہلے جینا چھوڑ دیا تھا ۔کفن تو ہم نے بعد میں پہنایا ۔قبر میں بعد میں اتارا ۔انہوں نے وقت نہیں چہرے بدلتے دیکھے تھے ۔یہ اجنبی چہرے ،اجنبی رشتے ان سے برداشت نہیں ہو رہے تھے ۔میں انکی آنکھوں میں دیکھتی تو ایسا لگتا جیسے وہ چیخنا چاہتی ہوں ۔انکی آواز گھٹ گئی تھی لیکن مجھے پتا تھا کہ و ہ ان سارے چہروں کو گھر سے نکالنا چاہتی ہیں ۔یہ اجنبی چہرے انہیں چہرے نہیں دیواریں لگتیں ۔ٹھنڈی اور سپاٹ ،جن پر موٹے حروف سے لکھا ہوتا ،بس کرو کتنا جیو گی؟وہ گھبرا کے ماموں کا ہاتھ پکڑلیتیں ۔اتنے اجنبی چہروں میں وہی ایک شناسا چہرہ تھا ۔جو اس حال میں بھی اجنبی نہیں ہوا تھا،آج سارے اجنبی انکے لئے رو رہے تھے ،چیخ رہے تھے ،انکا راستہ روک رہے تھے ،پتہ نہیں غم تھا یا شر مندگی ؟
ماموں کی حالت پاگلوں والی ہوگئی تھی جس پہ سب بہت مطمئن تھے ۔ایسے محبت کرنے والے شوہر کا ایسا ہی حال ہونا چاہیے ۔ماموں روتے تھے یا عبادت کرتے تھے ۔
حسب دستور سب ہی اس حال پہ پہلے افسوس ،دوسرے مہینے مذاق اڑاتے اور تیسرے مہینے مشورے دینے لگے ۔ہم سب بھی اس غم سے باہر آچکے تھے۔زندگی اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے ۔کبھی ہاتھ پکڑ کر کبھی دامن پکڑ کر ،کوئی کب تک اس سے بے رخی برتے ،؟سوائے معدودے چندلو گوں کے ۔جو حیات فانی اور حیات جاوداں کو بیک وقت دیکھتے ہیں ،شائد اسی لئے وہ بڑ ے سبک ،بڑے سہل ہو کر دوسری زندگی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں ۔زندگی سے انکی ترجیحات اور مطالبات ختم ہو جاتے ہیں اسلئے وہ بڑے منصف بڑے عادل ہو جاتے ہیں ۔ہم کم بختوں کے نصیب میں کہاں یہ سب ۔۔
ایسے میں ایک بوڑھا تنہا شخص کس کو نظر آتا ؟
ماموں گھبرا گھبرا کے کبھی ایک تو کبھی دوسرے کے گھر چلے جاتے ،یا پھر رشتہ داروں سے فون پہ لمبی لمبی باتیں کرتے ۔آہستہ آہستہ سب بے زارہوتے گئے ۔کوئی کہاں تک قصہ غم سنے اور سننے کو تھا ہی کیا ؟ایک تکلیف دہ بیماری ،جس کی جزئیات تک ماموں کی زبانی سب سن چکے تھے ۔مامی کی آنتوں میں پھیلنے والا کینسر ،ماموں کے دل تک پہنچ گیا تھا ۔مامی آہستہ آہستہ چھوڑ کر گئی تھیں ،جس پر سب سے آخر میں خود ماموں کو یقین آیا تھا،باقی سب توکتبہ بھی لگا چکے تھے ۔
مجھے ماموں پہ بڑا ترس آتا ،کم عمری کی شادی تھی ،آج کل کی میچورڈ شادی تو تھی نہیں ،ایک عمر گذاری تھی ماموں نے مامی کے ساتھ۔ماموں کو خدمت کی عادت تھی نا اب کرنے کو کچھ نہیں ہے تو ماموں بور ہو رہے ہیں ،ہم تھوڑا پریکٹکل ہو کر سوچتے ، ۔۔ارے ماموں آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے،اچانک جب ہمارے دل کا بوجھ بہت بڑھ گیا تو جیسے اللہ نے ہم سے کہلوایا۔ہم نے کہنے کو تو کہہ دیا لیکن آنکھیں بند کرلیں ۔ایک خوفناک چیخ کا انتظار کرنے لگے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو آنکھیں کھول دیں ۔ماموں کے چہرے پہ ڈری ڈری خوشی تھی ۔لوگ کیا کہیں گے ؟
ارے ماموں بھاڑ میں جائیں لوگ ۔کس کو آپکی ضرورت ہے؟کس کے پاس آپکے لئے وقت ہے؟،،
ہم نے ماموں کو حوصلہ دیا۔
کیا ضرورت ہے ،؟سب سے بڑا اعتراض !
بچے ہیں ۔بچوں کو دیکھیں ۔’’ انکو دیکھنے کے بعد بھی کافی ٹائم بچ جاتا ہے ۔‘‘ماموں ہمارے سکھائے جوابات دہراتے ۔’’اور بچے بھی ماشاللہ بچوں والے ہیں ۔جن کے پاس باپ کے لئے وقت نہیں ہے ‘‘۔ ہم بھی ماموں کی ڈھال بن جاتے ۔
ہمیں تو پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ بڑا ہی غم پسند معاشرہ ہے ۔ہمیں غمگین چہرے دیکھ کر بڑی ہی تسلی ہوتی ہے ۔ہمیں ہر خوش باش بندے سے امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ہی کوئی بری خبر سنائے گا۔ماموں کو بھی ایسے ہی دکھی لوگوں نے گھیر لیا تھا ۔بچوں کو اچانک ہی اپنی ماں شدت سے یاد آنے لگی ۔لوگ ماموں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے تھے ۔لوگ ہی لوگوں کا خوف دلانے لگے ۔بیٹیوں کو سسرال اور بیٹوں کو جائداد کی فکر ستانے لگی ۔فکر نہیں تھی تو بس ایک بوڑھے ،تنہائی کا شکار شخص کی ،جو تنہائی کا زہر گھونٹ گھونٹ پی رہا تھا ۔
خیر آہستہ آہستہ محبت کی ماری بہنیں اور ایکسائتمنٹ کی شوقین نئی نسل انکے ساتھ ہو گئی۔ماموں کے لئے مامی کی تلاش میں نکلے تو بڑی خوفناک حقیقتیں سامنے آئیں ۔ہم تو ایک ماموں کو رو رہے تھے یہاں ہر گھر میں ایسے عظیم لوگ موجود تھے،،کسی نے بچوں کی خاطر ،کسی نے بھائی بہنوں کی خاطر خوشیوں سے منہ موڑا ہوا تھا ۔جن کی خاطر یہ سب کیا تھا وہ اب خاطر میں نہیں لاتے تھے۔کوئی ضرورت نہیں کا طغرہ بنا کر دیوار سے لگادیا جاتا ہے ،حلانکہ اسی عمر میں تو سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔جوانی تولڑتے جھگڑتے ،جدوجہد کرتے ،بچوں کو بڑا کرتے گذر جاتی ہے ۔اس عمر میں جب کوئی لڑنے والا بھی نہ ہوتوصرف سانس کی آواز سنائی دیتی ہے اور اس سے بھی خوف آنے لگتا ہے ۔ہم کیسی ظالم قوم ہیں صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے ایسی ساری جیتی جاگتی روحوں کو تساؤ کے مجسموں کی طرح ایستادہ کر دیتے ہیں ،ہاتھوں میں تسبیح پکڑا کر ،مصلے پے بٹھا کر خوش ہوتے ہیں ۔
لیکن ماموں ڈٹ گئے ،ہر معاملے پہ سمجھوتہ کرنے والے ماموں تنہائی پہ سمجھوتہ نہ کر سکے ۔
اور آج ماموں کی شادی تھی ۔

2 comments:

  1. کاکی ــــــــــــــــــ ایناں سچ ، کون برداشت کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمال ھے وئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی تلخ حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی اچھی تحریر پر ڈھیروں پیار قبول فرماؤ ۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. ہمارے معاشرے میں منفی باتوں کے پنپنے کی اس قدر سازگار فضا ہے کہ کیا کہنے۔
    اور کسی کا بھلا ہورہا ہو تو لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا
    ایسی کوئی ضرورت کی شادی ہو ۔۔۔۔ یا کسی شادی شدہ جوڑے میں محبت پیدا ہوجائے تو بس سارا زمانہ جل اُٹھتا ہے
    آپ نے ٹھیک لکھا کہ
    "ہمارا معاشرہ بڑا ہی غم پسند معاشرہ ہے ۔ہمیں غمگین چہرے دیکھ کر بڑی ہی تسلی ہوتی ہے ۔ہمیں ہر خوش باش بندے سے امید ہوتی ہے کہ وہ جلد ہی کوئی بری خبر سنائے گا

    ReplyDelete