Wednesday 10 December 2014

اگر آپ وی آئی پی ہیں تو!


اگر آپ وی آئ پی ہیں تو
(زیتون بی بی(عالیہ ممتاز



کراچی ایک شہر ہے عالم انتخاب میں..بقول یوسفی اگر کراچی کو الٹا ہوکر دیکها جائے تو کراچی کی ہر چیز سیدهی دکهائ دیتی ہے..ہم نے چونکہ بچپن میں ہی یوسفی صاحب کی یہ بات گرہ میں بانده لی تهی لہزاہ ہمیں کراچی ہمیشه سیدها نظر آیا..ہمارا خیال ہے کہ ہمارے علاوہ کراچی کو سیدها دیکهنے کا اعزاز صرف بندروں اور چمگا ڈروں کو حاصل ہے..
خیر جناب وہ احباب جو کراچی سے تعلق نہیں رکهتے انکی سہولت کےلئے ہم کو شش کرتے ہیں کہ بارے کچه کراچی کہ بیاں کردیں...خیال رہے کہ ہم نے لفظ تعلق استعمال کیا ہے ..کراچی کو دیکهنے کی شرط ہم نے نہیں لگائی کیونکہ یہ دعوئ تو ہم بهی نہیں کرسکتے کہ ہم نے کراچی دیکها ہوا ہے..
خیر جناب اگر آپ کی آنکه میں بگولہ سما جائے یا بگولہ کو آپ کی آنکهیں مل جائیں تو کراچی کو دیکهنا چنداں مشکل نہیں ہے ..
جناب کراچی کے طول وعرض کی کیا بات کریں کہ کراچی کے چاروں طرف بهی کراچی ہی ہے .ہاں سہولت کے لئے یہ کہ سکتے ہیں کہ شیطان کی آنت کی لمبائ کو ڈهائ سے ملٹی پلائ کریں تو کراچی کی لمبائ ٹهیک ٹهیک معلوم کی جاسکتی ہے..اسک اندازہ ہم نے ایسے بهی لگایا کہ دوسرے ملکوں یا دوسرے شہروں میں اگر ہم اتنی مسافت طے کریں تو دوسرے شہر او ر کبهی کهی تو دوسرے ملک شروع ہوجاتے ہیں .....
کراچی ک تعمیر میں خاص دهیان رکها گیا ہے کہ خدانخواستہ یہ شہر کہیں خوبصورت نا لگنے لگے......دقیانوسی اور محبت کی ماری مائیں جس طرح آپنے کالے پیلے بچون ک چہروں پے ان سے بهی زیادہ کالا ٹیکہ لگا کر نظر ب یعنی اپنی ہی نظر سے محفوظ تصو ر کر لیتی ہیں بلکل ایس ہی کراچی محبت کے مارے لوگوں نے کراچی کے چہرے پر ایسے ٹیکے اتنی بڑی تعداد میں لگائے کہ اب صرف ٹیکے ہی نظر آتے ہیں کراچی کہیں منہ چهپائے بیٹها ہے..
کراچی کی ترتیب وتخریب میں ایک خاص قسم کا بهونڈوں پن پایا جاتا ہے..عمارتوں کے درمیان اتنا فاصلہ اتنے اہتمام اور شدت سے برقرار رکها گیا ہے کہ انکے درمیان جی بهر کر کچرا اور گندگی پهیلائ جاسکے..
پلوشن فری کراچی کے تصور سے ہی ہم کراچی والوں کا جی متلانے لگتا ہے..
خیر سے کراچی کی آبادئ اتنی ہے کہ بس اسٹاپوں پر ہمہ وقت اتنے لوگ موجود ہوتے ہیں جتنے نواز شریف اور بلاول کے جلسوں میں بڑے خرچے کر کے بلائے جاتے ہیں ..
ہمارا خیال ہے کہ فیس بک کانادر خیال کراچی ہی کی دیواروں کو دیکهکر آیا ہوگا ..کونسی پروڈکٹ اور بائ پروڈکٹ ہے جسکااشتہار ان دیواروں پے نہیں ہوگا ..سیاسی اور سنیاسی سارے بابا ہمیں دیواروں پے نظر آجایئں گے ....ہم بہت اہتمام اور خوشخطی کے ساته غلیظ اشتہار لکهتے ہیں ...ایک ہی دیوار پر آپکو اسلامی اور سرخ انقلاب گڈ مڈ نظر آئیں گے ..کئ دفعہ تو ہم نے اسلامی انقلاب اور بهٹو کے زندہ ہونے کی خبر نالے کی دیوار پر پڑهی ..
کراچی میں پچهلے پچیس سالوں میں کچه ایسی چیزیں متعارف ہوئیں جن سے باقی ملک کی خلق خدا محروم و محفوظ ہے ..اللہ محفوظ ہی رکهے ..مثلا کراچی کو کفن کا آلٹرنیٹ بوری انٹروڈیوس کرانے ک اعزاز حاصل ہے ...اس سے پہلے بقول یوسفی بوری سے اشرفی آٹا نکلتا تها ..خیر سے ہم نے اس تصور کو نئ جہت عطا کی ....
موبئل اسنیچنگ .اغوا برائے تاوان اور لینڈ مافیا کی انڈسٹرزنے دن دونی اور رات چوگنی ترقی کی ..اگر کراچی میں رہتے ہوئے آپ ا موبائل نہیں چهینا گیا ہے و اسکے دو ہی مطلب ہوں گے..یا تو آپ کے پاس موبئل نہیں یا آپ خود ...
کراچی مین ایک اور انڈسٹری ہے جس ے بارے میں غیر کراچی والے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں ..
لیکن یہ انڈسٹری سال میں صرف ایک ہی دفعہ کام کرتی ہے..جی ہاں قربانی کی کهالوں کی انڈسٹری ...
بس جناب کیا کیا جائے کہ ہم کراچی والے دوہری قربانی دیتے ہیں ..ابهی جانور گهر میں نہیں آتاکہ اسکی یا چارے کی بو پر کهالیں لینے والے چلے آتے ہیں ....جماعت اسلامی والے ایک پرچی پکڑا کہ جاتے ہیں کہ دوسری ہی سانس میں ایم کیو ایم والے آجاتے ہیں ..
اور جانور کو قصاب سے بهی زیادہ بری نظروں سے دیکهتے ہیں..
ایک دفعہ تو ہم نے کہ دیا کہ جناب آپ کهال اتار کر لے جائیں ہم بکر ے کو چادر میں بانده کر کهڑا کر دیں گے ..آگے اسکی قسمت ..جوابن ہمیں بهی ایسی ہی نظروں سے دیکها گیا..
کراچی کے موسموں کے بارے میں بهی کچه معلومات دینا ہم اپنی زمہ داری سمجهتے ہیں .ہمارے ہاں دو موسم پائے جاتے ہیں ..یعنی گرمی اور شدید گرمی ....اکثر تو ہمیں استخارے کرنے پڑتے ہیں کہ اے سی اٹهارہ پے چلانا ہے یا چهبیس پر ..
یہی کچه ہے ساقی متاع فقیر..
ہاں باقی ملک سے موسمی مطابقت پیدا کرنے کے لئے ہم موسم کا اندازہ بهی چہرے دیکهکر کرتے ہیں ..مزاجوں کی خشکی اگر کهال بهی نظر آنے لگے تو سمجه لیں کراچی میں سردی ہے ..یا پهر گورے کالے اور کالے بد رنگ ہو جائیں تب بهی یقیں ہو جاتا ہے کہ سردی آنہیں رہی سردی آگئ ہے...
باقی رہ گئے خزاں اور بہار تو اسکی نوبت اس لئے نہیں آتی کہ کراچی میں سبزہ بس اتنی ہی مقدار میں نظر آتا ہے جتنا ہم جیسے اناڑی پینٹر جب ہرا رنگ استعمال کرتے ہوئے برش کو جهٹک دیں تو جتنے چهینٹے کینوس پر سبز رنگ کے نظر آتے ہیں اتنا ہی کراچی میں سبزہ ہے ..کیونکہ دوچار یا ڈهائ پونے تیں قسم کی لوکل گورئمنت رہی ہیں انہوں نے بڑے ہی اہتمام اور دل جمعی سے پرانے پرانے درخت کاٹ 

ڈالے ..یہاں انسانوں کو ہی نہیں پرندوں کو بهی بے گهر کرنے کا کام خاصا تسلی بخش کیا جاتا ہے ..

جناب کراچی ک زکر کریں اور اس کی سڑکوں کا زکر نا ہو ..یہ ممکن نہیں ہے .کیونکہ کراچی میں رہ کر آپ کا واسطہ سب سے زیادہ سڑکوں سے ہی پڑتاہے..آپ نے وہ قومی نغمہ تو سنا ہی ہوگا ..'' چاند میری زمیں پهول میرا وطن .'' ..ہمیں یقین ہے کہ چاند کی زمیں پر اگر کوئ سڑک ہوگی تو وہ ہو بہو ایسی ہی ہوں گی ...
.بڑی ہی منتوں مرادوں سے جو سڑکیں بنائ جاتیں ہیں اور جن کو بنانے والوں کا رخ زیبا ابهی زیبا یعنی سڑک ہی کی طرف ہوتا ہے .اچانک کچه محکموں کو یاد آتا ہے کہ جہاں یہ سڑک بنائ گئ ہے اسکے عین نیچےتو گیس یا پانی کے زخائر ہیں..لہزاہ اسی خضوع خشوع کے ساته اسکو دریافت کرنے کے لئے کهدائ شروع کری جاتی ہے....
کبهی کبهی تو ہمیں ایسیا لگتا ہے کہ یا تو کهدائ کر کے پورا شہر دفن کرنے کا پلان ہے یا پهر نیا شہر دریافت کرنے کا ارادہ ..اس ساری کهدائ کے نتیجے میں جو مٹی اڑتی ہے اسکی ایک مناسب تہہ کراچی والوں کے چہرے پر سلیقے سے جم جاتی ہے .جو پانی نا ہونے ک صورت میں ایک دوسرے ہی نہیں تیسر ے کے منہ پر ہاته پهیر کر تیمم کا جا سکتا ہے....
دروغ بگردن راوی..
کراچی والوں کے کچه شوق دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں..ایک کهانے کا دوسرے مرنے کا ....خیر مرنے اور مارنے کے کام تو بخوبی ہو رہے ہیں ..لیکن ایسا لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی بل عموم اور کراچی کی بلخصوص واحد تفریح کهانا ہے ..
ہم اس کهانے کی بات نہیں کر رہے جو ادارے فروختند چہ ارزاں فروختند ..کے زمرے میں آتا ہے ..کیونکہ اگر ہم نے اس پر لکهنا شروع کیا تو فیس بک کی ساری دیواریں کم پڑ جائیں گی ..
ہم ریسٹورینٹ اور ڈهابوں والے کهانوں کی بات کر رہے ہیں ....اگر کوئ نوارد کراچی آئے تو اسکو ایسا گمان ہوگا کہ کراچی کی ساری خواتیں نے یا تو کهانا پکانے سے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے یا پهر ہم نے گهروں میں کچن بنانے چهوڑ دیے ....ڈهابوں اور سڑک چهاپ ہوٹلوں کا زکر ہی کیا نامی گرامی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈز کی چینوں میں ویک اینڈ پے آپکو باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے..
بعضے بعصے تخت ہوٹل تو آپکو نالے کی دیوار کے ساته بهی مل جائیں گے..جہاں مطمین بهوکے بڑے مزے سے یا تو مرغی کے غسل میت یعنی سوپ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے یا پهر مرحومہ مرغی کی چتا کو بهنبهوڑ رہے ہوں گے .اپنی تسلی کے لئے ہم نے انکو بروسٹ اور روسٹ کے نام دے رکهے ہیں .
..دوسرا شوق جو اسکے ساته روکن کے طور پر ملتا ہے وہ ہے بیمار ہونے کا ..فراز نے شائد اس لئے ہی کہا تها کہ .
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز 
آنکهیں بهجی بجهی ہیں تو چہرے تهکے تهکے..
تو جناب ہم کها کها کر بیمار ہوتے ہیں اور دوبارہ کهانے کے لئے صحت یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ..
اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک تیسری صنعت یعنی اسپتالوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے..
اس سارے قصے اور قضئے کی وجہ بهی ایک سرکاری اسپتال کا چکر تها ..ویسے تو ہماری نوک زبان جو دعا ہوتی ہے اور جس میں ہم بلا تخصیص سب کو شامل کر لیتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ سب کو ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے بچائے .
اب ہم نے اس میں اضافہ یہ کر لیا ہے کہ اللہ سب کو عام آدمی ہونے سے بهی بچائے ..
واقعہ یوں ہے کہ ہمیں ایک سرکاری اسپتال کے درشن کا موقعہ ملا...خیر سے ملا بهی وی آی پی کی سنگت میں ....اگر آپ وی آئ پی ہیں تو سارے دروازے کهل جا سم سم کی طرح چوپٹ ہو جاتے ہیں .بس پاس ورڈ وی آی پی ڈال کر دیکهیں ...
کراچی کے ایک دو بڑے سرکاری اسپتالوں کا درشن ہم نے پہلی دفعہ کیا..ہمیں تو یہ اسپتالوں سے زیادہ مسافر خانے لگے ..لواحقین مریض بڑے ہی سکون سے اسپتال کے فٹ پاتهوں پے محو استراحت تهے..ہمیں انکے اطمنان پر زیادہ غصہ آیا ...ایسی اونٹ قوم قسمت والوں کو ملتی ہے ..جتنا چاہو بار برداری کا کام لو اور کهونٹے سے بانده دو..یہی صورت حال پورے اسپتال کی تهی ..آنکهوں کے وارڈ میں چونکہ مریض صرف آنکهوں کی شکایت کے لئے آتے ہیں اسلئے لفٹ جیسی عیاشی کو بند کر دیا گیا تها .اسلئے مطمئیں اونٹ قوم اپنے مریضوں کو دهاتی اسٹریچر پر سکون سے تیسری منزل تک لے جا رہی تهی..صفائ کے تو نمبر ہی نہیں ملنے تهے لہزاہ اس طرف سے ہم بری الزمہ ہی ہو گئے تهے..آنکهوں کے معائنے کی مہنگی تریں مشینیں موجود تو تهیں لیکن خراب ..کیونکہ ہم نے کهلی آنکهوں سے کیا دیکه لینا تها..
خیر جناب دوسرے اسپتال کی حالت زار میں فرق یہ نظر آیا کہ یہاں زیادہ گندگی تهی اور زیادہ اطمنان .
ڈاکٹروں سے لے کر عملے تک اور مریضوں سے لے کر انکے لواحقین تک سب مطمئیں نظر ائے .کوئ شکوہ نہیں .کیونکہ شکوہ کے لئے اس احساس کا ہونا بہت ضروری ہے جسکو اپنا حق کہتے ہیں ..ہر چیز پر کمپرومائز ہماری عادت ہوگئ ہے .ہمیں کہیں بهی اپنی حق تلفی یا زلت محسوس نہیں ہوتی ..کوئ موت دکها کر بخار پر راضی کرلے تو ہم اسکو اپنا مسیحا سمجه لیتے ہیں .
اس لئے ہر گدها گهوڑا ہمارے سروں پر بیٹه جاتا ہیے اور ہمارے اندر صرف ایک خواہش جنم لیتی ہے ..کہ کسی بهی طرح ،کسی بهی چور دروازے سے ہم وی آی پی بن جائیں ..
کیونکہ اگر آپ وی آئ پی ہیں تو آپکے راستے میں اندهے بهی آئیں تو ان پر بلا تخصیص چهترول کردی جائے گی ..
ہم اپنے سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹهے سرخ سفید دهاڑیوں والے اندهے ،بہروں ،لولے لنگڑوں کو سڑکوں پر گهسیٹے جانے کے منظر کو انجوائے کریں گے..
کیونکہ اگر آپ وی آی پی نہیں ہیں تو اپکو اس ملک میں زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں۔۔۔۔

3 comments:

  1. بی بی جی ۔ ہم نہ تو وی آئی پی ہیں اور نہ ٹپی ٹی آئی ہیں کہ دھاندلی کا شور مچائیں اور دھاندلی کریں ۔ ہم پہلے سے ہی سہمے بیٹھے ہیں کہ آپ نے پوری ڈراؤنی فلم چلا دی ہے ۔ کراچی کی آخری زیارت جنوری 2005ء میں ہوئی تھی ۔ ابھی پہنچے 4 دن گذرے تھے علیل ہوئے ۔ سرکاری ہسپتالوں کی برائیاں سن رکھی تھیں سو آغا خان ہسپتال پہنچے ۔ 20 گھنٹے ہسپتال میں جو تجربہ ہوا سرکاری ہسپتالوں سے پیار ہو گیا ۔ سوچا پلے سے پینتیس چالیس ہزار روپے دے کر یہی کچھ کروانا تھا تو سرکاری ہسپتال کیوں نہ گئے ۔ کم از کم پیسے تو بچ جاتے ۔ مزید یہ کہ ڈی ایچ اے فیز 5 میں قیام تھا ۔ ایک رات بن بُلائے مہمان آ گئے پستول دکھا کر ہمارے میزبان خاندان کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے ۔ ہم اسلوب سے ناواقف تھے ۔ میری بیگم اُن کے پاس سے گذر کر میرے لئے پانی لینے گئیں اور پھر سامنے سے گذر کر میرے پاس آئیں راستہ کھلا کرانے کیلئے پستول بردار سے کہا ”پیچھے ہٹو ۔ کیا کر رہے ہو“۔ وہ پیچھے ہٹ گیا ۔ اس کے بعد اُسے علم ہوا کہ میں کمرے میں ہوں تو میری طرف پستول کا رُخ کر کے باقیوں کی طرف جانے کا اشارہ کیا ۔ میری بہو جو میزبانوں کے ساتھ یرغمال بنی ہوئی تھی بولی ”خبردار انکل کو کچھ مت کہنا ۔ بیمار ہیں“۔ میں نے بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر کے بیٹے کو ٹیلیفون کیا جو میرے لئے دوائیاں لینے گیا ہوا تھا ۔ اُس نے پولیس کو اطلاع کر دی ۔ کمال یہ کہ پولیس والوں کے پہنچنے سے قبل پستول والے کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور وہ سب رفو چکر ہو گئے۔
    http://www.theajmals.com

    ReplyDelete
  2. مدت بعد ایک بہت ھی شگفتہ تحریر-
    کراچی کی اس سے بہتر تصویر کشی ممکن نہ تھی

    ReplyDelete