Monday 2 March 2015



کانا کپڑا
(عالیہ ممتاز(زیتون بی بی

آپ نے کانا کپڑا دیکھا ہے؟اس نے اچانک چلتے چلتے رک کر مجھ سے پوچھا تھا اور ساتھ ایک عدد قہقہ بھی لگایا تھا ۔اس مختصر گفتگو میں یہ کوئی اس کا چوتھا قہقہ تھا ۔

کانا کپڑا ؟؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔
ہاں ۔کاناکپڑا۔ بھئی جس میں کان ہوتا ہے۔
مجھے ابھی بھی اسکی بات سمجھ نہیں آئی تھی ۔
دیکھیں کچھ کپڑے ہوتے ہیں نا انکی بنُت میں کوئی تیڑھ رہ جاتی ہے۔دیکھنے میں بلکل ٹھیک لیکن جب آپ اسکو کاٹ کر لباس تیار کرنا چاہیں تو پتہ چلتا ہے کے اس کے دونوں سرے تو ملتے ہی نہیں ۔پھر آپ کھینچ کھانچ کے سرے ملاتے ہیں تو کوئی اور سرا کانا ہوجاتا ہے ۔کاٹ کے لیول برابر کریں تو کپڑا کم ہوتا ہے ۔ اس نے پھر قہقہ لگایا ۔بس ہمارا رشتہ بھی ایسا ہی کانا کپڑا ہوگیا تھا ۔سرے ملکر ہی نہیں دے رہے تھے ۔وہ پھر ہنسی تھی ۔
میرا واسطہ اکثر روتے دھوتے لوگوں سے پڑتا ہے ۔شدید شاکی ۔خود سے قسمت سے ۔لیکن یہ عجیب لڑکی تھی ۔بات بے بات قہقے لگانا اسکی عادت تھی شائد ۔مجھے الجھن ہورہی تھی ۔کوئی اتنا خوش نظر آئے تو بہت دکھی ہوتا ہے ۔لیکن یہ کہیں سے بھی تو دکھی نہیں لگ رہی تھی ۔چمکتے ہوا چہرہ ،اس سے بھی زیادہ چمکتی ہوئی ذہین آنکھیں ۔جن میں دور دور تک کوئی آنسو نہیں تھا۔
تو تم خوش ہو اس رشتے کے ختم ہونے پر ۔؟؟
خوش ۔۔؟؟اسکی چمکتی ہوئی آنکھین ہلکی سی دھندلائی تھیں ۔اوس قطرہ قطررہ اترنے کو تھی ۔لیکن اسنے اس لمحے کو گرفت میں لے لیا ۔
ہاں ۔شائد ۔۔وہ پھر ہنسی ۔۔
یہ تم اتنا ہنستی کیوں ہو ؟؟
بلاخر میں نے تنگ آکر کہدیا ۔
وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی ۔جیسے دہکتے ہو ئے انگارے پے راکھ کی خاموش تہ جم جائے۔کہیں جلتی بجھتی گرم گرم سی روشنی محسوس ہو ۔
اسکو بھی میری ہنسی سے چڑ تھی ۔اسکو لگتا تھا جیسے میں اسکو سیریس نہیں لے رہی ہوں ۔اوس کے قطرے پگھل کر آنکھوں کے کناروں تک آگئے تھے ۔
مجھے ندامت سی ہوئی ۔ہم بھی کیا عجیب لوگ ہیں روتی ہوئی شکلوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کے ہنستی ہوئے لوگوں کی آنکھیں نم دیکھنا چاہتے ہیں ۔میں نے منہ پھیر کر اسکو سنبھلنے کا موقعہ دیا �آآپ بھی تو مجھے ایسی ہی بے وقوف ،پاگل سی لڑکی سمجھ رہی ہیں نا ۔اسکی آواز میں تھوڑی تھوڑی شکایت تھی ۔ہاں ۔۔میں نے ایمانداری سے کہا ۔
پھر ہم دونوں ہی ہنس دیئے تھے ۔
اسکی آنکھیں پھر سے چمک رہی تھیں ۔
اچھا تو ہوا کیا تھا ۔؟
صرف اس بات پے تو کسی کو نہیں چھوڑا جا سکتا کے کوئی ہنستا بہت ہے ۔
پتا نہیں ۔شائد مجھے کسی کو یقین دلانا بھی نہیں آتا ۔کسی سے یہ کہنا کے تم میرے لئے بہت اہم ہو۔کتنی عجیب بات ہے نا ؟کیوں کہیں ہم ۔؟کیوں یقین دلائیں ؟
کیوں کیا واقعی وہ رشتہ تمہارے لئے اہم نہیں تھا؟
میں خود بھی اس نرالی منطق سے الجھ کر رہ گئی تھی ۔
کانا کپڑا
عالیہ ممتاز(زیتون بی بی)

وہ ہلکے سے ہنسی تھی ۔لیکن مجھے لگا جیسے وہ کراہی ہو۔جیسے زخم کو کریدا ہو۔سسکی سی تھی ۔
میں اسکو تو یقین نہیں دلاسکی ۔لیکن مجھے خود یقین ہوگیا کے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں اسکے لئے ۔بس یہ برداشت نہیں ہوسکا مجھ سے ۔
کیسے ؟کیسے تمہیں یقین ہوا ۔؟
آپ نے تارے ٹوٹتے دیکھے ہیں ؟اس نے سوال کیا ۔
ہاں کبھی کبھی ۔۔
وہ چپ ہوگئی تھی ۔
ٓآپ کو پتا ہے تارے کیسے ٹوتٹے ہیں؟
شائد انکو جوڑے رکھنے والی کشش ختم ہوجاتی ہے ۔میں نے کچھ کچھ سائینسی جواب دیا ۔
ہاں شائد۔
یا شائد جس اندیکھے رشتے سے وہ بندھے ہوتے ہیں کوئی مٹھی کھول کر انہیں آزاد کر دیتا ہے ۔ہیلیم غبارے کی طرح ۔وہ خلاوں میں سر گردان رہتے ہیں ۔اپنی اناوں کی قیمت چکاتے ہوئے ۔اسکی آواز کی نمی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔
کیا انا کسی رشتے سے بھی بڑھکر ہوتی ہے ؟میں نے سوال کیا
ہاں کبھی کبھی انا وہ ریت بن جاتی ہے جس میں منہ چھپا کے ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔
لیکن کیوں ؟میرا سوال اب بھی وہی تھا ۔
وہ چلتے چلتے رک گئی ۔اپنے جاگرکی نوک سے لکیریں بناتے ہوئے اسکی آنکھیں گہری سوچ میں تھیں ۔
کیوں ؟کیوں ؟کیوں ؟
بس اس کیوں کا ہی تو جواب نہیں ملتا ۔
وہ دھیرے سے بڑبڑائی تھی ۔وہ بکھرتے ہوئے سمٹنے کے عمل سے گذر رہی تھی ۔
ویسے تم شتر مرغ تو نہیں لگتیں ۔میں نے ماحول کی سفاکی کو کم کرنے کے لئے مسخرے پن سے کہا تھا ۔
وہ پھر سے کھلکھلا کے ہنسی تھی ۔
ہاں شترمرغ ہی ہوں ۔
ہم پھر سے واک کر رہے تھے ۔
دو تین مذید لمبے راونڈز کے بعد ہم تھک کر بیٹھ گئے تھے ۔
ہم واک فرینڈز تھے ۔تازہ تازہ ۔
وہ مجھے اچھی لگی تھی ۔روشن چہرے اور روشن آنکھیں بھلا کس کو اچھی نہیں لگتیں ۔بس ایسے ہی دوڑتے بھاگتے ہماری دوستی ہوگئی ۔
اسکی ہنسی پورے وجود پے چھائی ہوتی تھی ۔
وہ پورے وجود کے ساتھ ہنستی تھی ۔خالص اور نا پید و نایاب ہنسی ۔
کبھی غور کیا ہے کے اب ہم ایمانداری سے ہنستے تک نہیں ہیں ۔ہنستے ہوئے بھی ہمارا ذہن کسی نا کسی حساب کتاب میں مصروف ہوتا ہے ۔ہم ہنسی بھی ناپ تول کر خرچ کرتے ہیں ۔
مجھے اسکو دیکھ کر بچپن کی کہانی یاد آجاتی جس میں ایک لڑکی کی نیکی سے خوش ہوکر پری اسکو دعا ء دیتی ہے کے ہنسوتو منہ سے پھول جھڑیں اور رو تو آنکھوں سے موتی ۔بس پھر وہ اپنے ہنسی کے پھول بکھیرتی رہتی ۔
بس یہ بھی ایسی ہی لڑکی تھی ۔
شائد میرے اندر بھی کوئی کمینہ سا حسد تھا ۔کوئی ایسا ہی ہنسی دشمن جذبہ ۔یا شائد یہ حسرت کے میں اسطرح نہیں ہنس سکتی ۔بے فکری سے ۔
ہم دوسر ے دن ملنے کے وعدے پے پھر جدا ہوگئے ۔
گھر آکر بھی میں اسکے ہی بارے میں سوچتی رہی ۔انا ،فنا ،محبت کی تکرار کے ساتھ اسکی ہنسی ۔عجیب اداسی تھی ۔میں کبھی اسکی ہنسی کا کان کھینچ کر اسکی انا سے سرا ملاتی تو اسکی محبت کا سرا کانا ہوجاتا ۔ٹھیک کہا تھا اس نے ۔عجیب کانے کپڑے جیسا رشتہ تھا اس کا ۔میں نے بڑی عام سی لڑکیوں کو بڑے ہی خاص لوگوں پے راج کرتے دیکھا ہے ۔پھوہڑ ،اوسط شکل وصورت اور عام سی ذہنیت کی لڑکیاں مردوں کی بڑی فیورٹ ہوتی ہیں ۔اور جو لڑکی اپنے رشتے کی تشریح کانے کپڑے سے کرے اسکو شائد دکھ اٹھانے ہی پڑتے ہیں ۔پھر بھی اس خوبصورت ہنستی ہوئی آنکھوں والی کے لئے دل اداس تھا ۔
دوسرے دن ہم پھر ساتھ تھے ۔
گذشتہ کل کا کوئی آنسو اسکی آنکھ میں نہیں تھا ۔پتہ نہیں کیوں مجھے مایوسی سی ہوئی ۔شائد میں اسکی موٹی موٹی ،سرخ سوجی ہوئی آنکھیں ایسپیکٹ کر رہی تھی ۔وہی کمینہ پن ۔
ہم ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہے ۔
اچھی خاصی کیلور یز جلانے کے بعد ہم ساتھ بیٹھے تھے ۔اس نے اپنی پانی کی چھوٹی سی بوتل منہ سے لگائی ۔پسینے کے قطرے اسکی شفاف پیشانی پے چمک رہے تھے ۔
ایک تو مجھے پیاس بہت لگتی ہے ۔وہ پھر ہنسی ۔
(اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔؟میں نے دل میں سوچا ۔پاگل )
اور آپ کیسی ہیں ؟اسکو میری خیریت پوچھنے کا خیال آیا ۔
ٹھیک ۔۔بس تمہاری طرح ہنس نہیں سکتی ہر بات پے ۔میں نے مسکرا کے طنز کیا ۔
وہ کھلکھلاکے ہنس دی ۔ہاں یہ تو ہے ۔
لڑکی میں نے تم پے طنز کیا ہے ۔میں نے اس پر واضح کیا ۔
ہاں پتہ ہے ۔اکثر لوگ کرتے ہیں ۔لیکن مجھ پے اثر نہیں ہوتا ۔
اس نے لا پروائی سے آستینوں سے منہ صاف کیا ۔گلی میں کھیلتے گندے بچوں کی طرح ۔اور پھسکڑا مار کر زمین پر مخالف سمت میں بیٹھ گئی ۔اسکی وجہ دوسری جانب کھیلنے والے بچے تھے جنکو وہ یا تو ہدایات دے رہی تھی یا کبھی ہوٹ کر رہی تھی ۔کبھی کسی اچھے شاٹ پر دونوں تھمبس اونچے کرکے انکی حوصلہ افزائی بھی کرتی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے مجھے یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔یا پھر یہ دنیا کا سب سے اہم کام ہے ۔لوگوں کو پڑھنامیرا پیشن اور پروفیشن ہے ۔آنکھوں میں چھپی کہانیاں اور رنگ برنگے لہجوں میں سے سچائی ڈھونڈنا میرے لئے اب کوئی خاص مشکل نہیں رہا ۔آنکھیں شخصیت کا بلو پرنٹ ہوتی ہیں اور لہجہ گفتگو کا ڈی این اے ۔
لیکن یہ عجیب لڑکی تھی ۔سیدھا سچا لہجہ اور شفاف آنکھیں ۔جن میں کوئی چالاکی عیاری نہیں تھی ۔ایسی لڑکی کو دکھ دینا کوئی آسان تو نہیں ہوگا ۔لیکن اس کو دیکھکر بھی تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے یہ بھی اسکو یکسر فراموش کرچکی ہے ۔ پھر ؟پھر کاہے کا دکھ ؟میں بھی نا کبھی کبھی بلاوجہ کچھ زیادہ ہی سوچ لیتی ہوں ۔۔میں نے خود کو جھڑکا۔
چلیں ۔۔اچانک اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
اس کے چہرے پے ایسی ہی خوشی اور اطمنان تھا جیسے اس نے ہی فٹ بال کا میچ جیتا ہو۔
میں نے بھی مسکراکر اسکی طرف دیکھا ۔
سو اور کیا مصروفیت ہوتی ہے تمہاری ۔میں نے پوچھا ۔
کچھ خاص نہیں ۔اس نے پھر قہقہ لگایا ۔
اگر ہنسنے سے فرصت مل جائے تو کچھ کرو نا ۔میں نے بھی جوابی کاروائی کی ۔
وہ بھی یہی کہتا تھا ۔اس نے ہنستے ہوئے آنکھیں صاف کیں ۔
اچانک جیسے دکھ بانہیں پھیلا کر میرے وجود سے لپٹ گیا ۔مجھ میں اسکی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں تھی ۔
میں خاموشی سے اسکے ساتھ چلتی رہی ۔
پتہ ہے کبھی کبھی عام سا ہونا بہت اچھا ہوتا ہے ۔جیسے وہ خود سے بول رہی تھی ۔عام سی لڑکی ،عام سی محبت ،عام سا رشتہ ۔۔وہ پھر ہنسی تھی ۔و نمکین ہنسی ۔
یہ خاص ہونا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے ۔
تو تم بن جاتیں نا عام سی لڑکی ۔
میں نے وہ مشورہ دیا جو میرے ہی مزاج کے خلاف تھا ۔
بہت کوشش کی تھی ۔لیکن میرے جیسی بیوقوف لڑکیاں جب سب کے جیسا بننے کی کوشش کرتی ہیں تو اور مار کھاتی ہیں ۔
میں چپ رہی ۔کیونکہ یہ المناک سچ تھا ۔
پھر بھی اسے بھی تو تم سے محبت تھی نا۔
تھی نہیں ہے ۔۔
اس نے عجیب انکشاف کیا ۔
کیا مطلب ؟؟؟
ہاں ۔۔
پھر آخر مسئلہ کیا ہے ۔؟میں بری طرح الجھ کر رہ گئی تھی ۔
بس مجھے محبت کرنی نہیں آتی ۔۔
اس نے سارا قصور اپنے سر لے لیا ۔
اسکو تو آتی ہے نا ؟؟
ہاں ۔وہ سمجھتا ہے محبت کوئی خودکش جیکٹ ہے جسکو پہن کر بندہ جان دے دے ۔۔
اس نے عجیب بے ہودہ مثال ہی نہیں دی ایک قہقہ بھی لگایا ۔
تو دے دینی تھی جان ۔۔اس جان کنی سے تو اچھا تھا ۔
مجھے بلاوجہ غصہ آگیا ۔
وہ پھر ہنسی ۔۔
میں نے اسکی خاطر اسکو چھوڑ دیا ۔اس کی ہنسی نم نم سی تھی ۔جیسے اوس میں بھیگے پھول ۔
اسے کمال کا ضبط تھا ۔۔
شائد شائد میں اس مقام سے پرے پرے ہی رہی جہاں چھاپ تلک چھین لی جاتی ہے۔۔
وہ شائد خود بھی دکھ کی اس اذیت سے نکلنا چاہتی تھی ۔
بس مجھے یقین ہوگیا کے وہ میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکے گا ۔وہ مجھے بات بات پے ذلیل کرنے لگا تھا ۔بس ایسے ہی ۔پہلے مجھے لگا وہ مجھے پوزیس کر رہا ہے ۔مجھے عجیب سی خوشی ہوئی ۔۔پتہ ہے اللہ کو آنکھیں نہیں بنانی چاہیے تھیں ۔۔۔

پری کی دوسری دعا ء بھی قبول ہوگئی تھی ۔

5 comments:

  1. اور کچه کیوں نہیں لکهتیں آپ زیتون؟؟؟ بلاگ اجاڑ ہوا پڑا ہے بی بی

    ReplyDelete
  2. bus aab book aaiy gi inshalalh

    ReplyDelete
  3. خوب است جی! کتاب کاانتظار رہے گا-

    ReplyDelete
  4. مدت سے بک مارکس میں بلاگ موجود ہے لیکن پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا

    ReplyDelete