Monday 13 October 2014


ننھا شہزادہ
زیتون بی بی
ٓآپ کے پاس ’’ننھا شہزادہ ‘‘ہے؟‘
یہ شہر کی پانچویں مارکیٹ اور کوئی بیسویں دکان تھی ،اور مجھے یہاں بھی ما یوسی کا سامنا تھا،
اکثر دکان داروں کی آنکھوں میں تمسخر ہوتا ،جیسے کہہ رہے ہوں بی بی اس عمر میں ننھے نہیں بڑے شہزادے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔لیکن مجھے اس کتاب سے عشق تھا ، یہ مجھ سے گم ہو چکی تھی ۔عشق ہی کی طرح ،پھروہ عشق ہی کیا جو پاگل نہ کردے ،رسواء نہ کرے؟بس میں بھی اس پاگل پن اور رسوائی کو جھیل رہی تھی۔
یہ ایک فرنچ مصنف کا شہکار تھی ۔کچھ چیزیں بڑی عجیب ہوتی ہیں ،لکھوالی جاتی ہیں ،صحرا میں اگنے والے کیکٹس کی طرح ،زمین کے سینے سے نمی حاصل کر کے اور سورج کی سخت مزاجی برداشت کر کے ،، انکے وجود پے کانٹے ضرور ہوتے ہیں لیکن اندر ٹھنڈا میٹھا رس بھرا ہوتا ہے ۔۔
میں ہر دفعہ اسکونم آنکھوں کے ساتھ پڑھتی اورمقدس کتابوں کی طرح چوم کے رکھ دیتی۔ القائی چیزیں دنیا میں کہیں بھی ظہور میں آسکتی ہیں ۔ بس وہ بھی مجھے ایسا ہی سکون دیتی ۔
پھر ہر قیمتی چیز کی طرح وہ بھی مجھ سے گم ہو گئی شریر بچوں کی طرح ،جو اچانک ہی سڑک پہ ہاتھ چھڑا کے بھاگ جائیں ،اور ٹریفک کا شور آپکو حواس باختہ کردے۔
بس میں بھی ایسی ہی حالت میں تھی ،ایک ایسی ماں کی طرح جو ہرایک سے پوچھتی پھرتی ہے کہ آپ نے میرے بچے کودیکھا ہے؟اس نے اس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟اور لوگوں کے انکار سے ہلتے ہوئے سر بھی اسکو تلاش سے نہیں روک سکتی اور وہ نئی ہمت سے تلاش میں مصروف ہو جاتی ہے۔
بس میں بھی ایسی باؤلی ماں تھی۔


کچھ دکھ بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ان سے باہر آنے کے لئے آپکو خود ہی اپناہاتھ پکڑنا ہوتا ہے ،ورنہ آپ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں ،بڑا عجیب وقت ہوتا ہے ۔آپکی ذات جگسا پزل بن جاتی ہے ،بظاہر مکمل ،جڑی ہوئی لیکن ہرٹکڑا دوسرے کی نفی کرتا ہوا ،جگر لخت لخت کو جمع کرناشائد اتنا مشکل نہ ہوتا ہو ،شائد رفو گری میں ہم رنگی کی آسانی بھی شامل ہوجاتی ہو ۔بس ایسے ہی دن تھے جب لفظ گونگے ہو گئے تھے اور خامشی وحشت ناک ۔سارا وقت ذات کی کرچیاں جوڑتے انگلیاں زخمی کرتے گزر جاتا۔خالی خالی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا پڑے تو دنیا بھی بلکل خالی لگتی ہے ،رنگ تو آنکھ میں ہوتے ہیں ۔
بس ایسے ہی دن تھے ۔بے اعتبارے سے ،بھونڈے اور سخت،ایسے دنوں کی خاص بات ہوتی ہے،کے آپکے منہ کا ذائقہ تک تبدیل ہوجاتاہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹشو پیپر کھارہے ہوں ۔
زندگی کا سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب آپکو خود اپنی ذات کھوجنا ہوتا ہے،جو کہیں ڈرکر چھپ کر کسی کونے میں اپنے ہی بازووں میں منہ چھپا کے بیٹھی ہوتی ہے ۔
ایسے میں مجھے یہ کتاب اور بھی شدت سے یاد آتی۔
کھالہ۔۔۔ کوئی میرا دامن پکڑ کے کھینچ رہا تھا۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو ’’ ننھا شہزادہ ‘‘ کتاب سے باہر آکے کھڑا تھا ۔میرا دامن پکڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے ، ڈھیر سارے گھنگھریالے بال ،چمکتی آنکھوں اور معصوم صورت والا ننھا شہزادہ !
یہ ہماری محمد سے پہلی ملاقات تھی ۔ہمارے پڑوسیوں کا پیارا سا بچہ۔۔ فقط دو سال کا !
اس کے والدین،سائبر والدین تھے ۔سکائپ اور ٹینگو والے !مس یو ،کس یو والے! ماں مڈیسن کی تعلیم کے لئے اور باپ بزنس کے لئے الگ الگ دنیاؤں میں مقیم تھے ۔انکے اور محمد کے بیچ ہمیشہ ایک سکرین کا فاصلہ رہتا ۔ویل کنکٹڈ،لیس کنسرن والی مجبوریاں۔۔ محمد اپنی دادی کے پاس رہتا تھا ۔دادی بس ماں تھیں ۔ماں ،جسکے لئے ماں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔عورتوں کی بس دو ہی قسمیں ہوتی ہیں۔
ایک وہ جو ماں ہوتی ہیں، دوسری جو صرف عورت ہوتی ہیں ۔ماں ہونے کیلئے ماں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔کچھ عورتیں اولاد رکھنے کے باوجود ماں نہیں صرف عورت ہوتی ہیں ،اپنی ذات کے گرد گھومنے والی ،اپنے بارے میں سوچنے والی ۔عورت جب تک ماں بن کر سوچتی ہے کامیاب رہتی ہے ۔بلند ہو جاتی ہے ۔اسکا کنکشن براہ راست خالق سے جڑ جاتا ہے لیکن عورت بنتے ہی وہ معمولی سی مخلوق بن جاتی ہے ۔عام سی لیونگ تھنگ،پھر وہ معتبر نہیں رہتی ۔اسکی آنکھیں صرف اپنا عکس دیکھتی ہیں ۔اسکی ذات کل سے جز کیطرف چل پڑتی ہے جیسے نیوکلیس سے نکلا ہوا بے کشش الیکٹران ۔
دادی، ماں تھیں۔ خالص ماں ۔وہ محمد کو محبت کھلاتیں،محبت پہناتیں اور محبت کے کمبل میں لپیٹ کر سلاتیں ۔بچوں کی بنیادی ضرورت ۔اسکے بعد باقی ہر چیز کی حیثیت ثانوی ہوتی ۔محبت سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور دادی ہر لمحہ اس میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔
میں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ۔کسی بادشا ہ کے محل میں ایک جادوگر آجاتا ہے ۔اسکو بادشاہ کی ہیپی فیملی سے بڑی نفرت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ خود اس سے محروم ہوتا ہے ۔وہ بادشاہ کی فیملی کا حصہ بننے کی خواہش کرتا ہے ۔بادشاہ کو محسوس ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ محبت سے محرومی نے اسکے اندر محبت کی وہ پاسداری ختم کردی ہے جہاں محبت محفوظ ہوتی ہے ۔بادشاہ انکار کردیتا ہے ۔جادوگر کو بہت غصہ آجاتا ہے ۔اسکو اپنی ہتک محسوس ہوتی ہے اور وہ جھنجھلا کے کہتا ہے کہ سزا کے طور پے وہ سب کو ہمیشہ کے لئے پتھر بنا دے گا ۔بادشاہ بوڑھا اور کمزور ہوتا ہے ،جادوگر کا مقابلہ کرنے کی اس طاقت نہیں ہوتی ۔وہ جادوگر سے درخواست کرتا ہے کہ سزا میں تخفیف کردی جائے ۔شاید جادوگر کے دل میں کہیں محبت کی قدر موجود ہوتی ہے ۔لہذاہ وہ کہتا ہے کہ جب ایک ایسا شہزادہ آئے جسکے پاس آب محبت ہو وہ جب ان پتھروں پے ڈالے گا تو تم سب جی اٹھو گے ۔محل کے مکین پتھر کے بن جاتے ہیں اور شہزادے کے انتظار میں صدیاں گذر جاتی ہیں ۔ایسا نہیں تھا کہ اس دوران کوئی وہاں سے گذرا ہی نہیں تھا لیکن یا تو کوئی خالی ہاتھ ہوتا یا اتنا کور چشم کے اسکو پتھروں میں چھپے انسان ہی دکھائی نہیں دیتے لہذاہ محل کے مکینوں کا انتظار طویل ہوتا گیا۔پھر ایک روز وہ شہزادہ آہی گیا۔اسکی آنکھوں نے مٹی میں لپٹے ہوئے پتھریلی آنکھوں میں جی اٹھنے کا انتظار کرتے لوگوں کو پہچان لیا۔اسکی ہمت نے آب محبت کا حصول ممکن بنادیا ۔کسی کو زندگی دینے کی ہمت محبت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ محبت شہزادے کا سب سے مضبوط ہتھیار تھی لہذاہ شہزادہ جیت گیا ۔پتھر کے لوگ جی اٹھے ۔
میں نے زندگی میں نفرت کا زہر رکھنے والے ،جیتے جاگتے انسانوں کو پتھر بنا دینے والے جادوگروں کو چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ا ن کا کومپلیکس ہر خوبصورتی کو پتھرا دیتا ہے ۔جیتی جاگتی تتلیوں کے یا تو پر نوچ لیتا ہے یا انہیں حنوط کر دیتا ہے ۔آب محبت لانے والے شہزادے کم ہمت ہوگئے ہیں ۔۔لہذاہ شہر میں پتھر کے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ،جی اٹھنے کے انتظار میں جینے والے لوگ۔۔
محمد ایسا ہی شہزادہ تھا ۔محبت کے ہتھیار سے لیس ۔اس نے اپنے تتلیوں جیسے لمس کو میرے وجود سے چھوا تو اسکے سارے رنگ میرے اندر ہولی کھیلنے لگے ۔وہ آتا تو اپنے جادو کے زور سے مجھے اپنی عمرکا بنالیتا ۔اسکے ہاتھ میں پینسل ہوتی اور میرے کمرے کی قیمتی دیواریں دنیا کی سب سے بہترین آرٹ گیلری بن جاتیں ۔ایک ایک لکیر میں پوری پوری داستا ن چھپی ہوتی۔بدصورت بلی اپنے لمبے پنجوں کے ساتھ ہم پے حملہ آور ہوتی تو ہم اتنا ڈر جاتے کے کمبل میں چھپ کر اسکے جانے کا انتظار کرتے ،بے ہودہ سے اونٹ کی تصویر جو صرف چند لکیروں پے مشتمل ہوتی اتنی جان دار ہوتی کہ ہم اس پے بیٹھ کر سمندر کی سیر کا لطف لیتے ۔ہم غبارے پھلاتے ،بلبلے بناتے انکے پیچھے بھاگتے ،کوک کی پرانی بوتل سے گھنٹوں فٹبال کھیلتے اور کمبل میں چھپ کر اندیکھی چڑیلوں سے ڈرتے ،جن کا واحد مقصد محمد کو چھین کر لے جانا ہوتا ،شائد ہم دونوں کے لاشعور میں اس لمحے کا خوف تھا ۔ایٹونی ڈی سینٹ اکزیوپرے’’ ننھا شہزادہ‘‘ میں کہتا ہے کہ آپ کسی بڑے سے کہیں کہ آپ نے لال اینٹوں والا گھر دیکھا ہے ،جس کی دیواروں پے جرمینیم کے پھول لگے ہین تو وہ کبھی آپ کی بات کا نوٹس نہیں لیں گے ،ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ گھر کی قیمت ۱۰ ہزار ڈالر ہے تو وہ کہیں گے واہ کیا خوبصورت گھر ہے ۔
بچے کی آنکھ ہی خوبصورتی کی پہچان کرسکتی ہے۔ہم سب اس آنکھ کو کیلکیولیٹر میں بدل دیتے ہیں ۔ناپ تول ،حساب کتاب ،بس ہماری زندگیاں اعداد کے گرد ہی گھومتی ہیں ۔۔اتنے کی محبت ،اتنے کے رشتے ،اتنے کا بھروسہ ۔۔۔۔اتنے اتنے اتنے۔۔
محمد نے میری آنکھوں کو بچے کی آنکھ بنا دیا تھا ،معصوم پانی سے بھری ہوئی ۔۔ہم ٹییرس سے نیچے منہ ڈالکر تھوکتے ،کسی گذرنے والے پے تھوک پڑجاتا تو ہمین بڑی کمینی سی خوشی ملتی ،ہنس ہنس کے ہم پاگل ہو جاتے ،کاغذکے جہاز بنا کر اسکو کبوتروں اور چیلوں سے مقابلہ کرواتے ، اس سارے پراسس سے ہم اتنا تھک جاتے کے اداس ہونے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔محمد اپنے گھر جاتے ہوئے کہتا’’ٹاٹوش‘‘ اس ’’ٹاٹوش‘‘ میں اس وقت گھر جانے کی مجبوری اور اگلے دن آنے کا وعدہ بھی ہوتا ۔
،، میرے ساتھ کھیلو ،، ننھے شہزادے نے لومڑی سے کہا،
میں بہت اداس ہوں ،،
معاف کرنا میں تمھارے ساتھ نہیں کھیل سکتی ،،لومڑی نے جواب دیا،،
کیوں تم میرے ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتیں ،؟ننھے شہزادے نے پوچھا ۔۔
کیوں کہ میں ’’مانوس‘‘نہیں ہوں ،لومڑی نے جواب دیا،
یہ مانوس کیا ہوتا ہے ؟ننھے شہزادے نے پوچھا ۔۔
اسکا مطلب ہوتا ہے ،رشتے کے ساتھ جڑنا،،
رشتے کے ساتھ جڑنا کیا ہوتا ہے،؟ننھے شہزادے نے پوچھا۔۔
دیکھو،تم میرے لئے صرف ایک ننھے لڑکے ہو ،باقی سارے عام سے لوگوں کی طرح ،میں بھی تمھارے لئے ایک عام سی لومڑی ہوں ،ہزاروں عام سی لومڑیوں کی طرح ،لیکن اگر تم مجھ سے مانوس ہو جاوگے تو میں تمھارے لئے خاص ہو جاؤں گی ،اور تم میرے لئے ،اور پھر میرے لئے ہر چیز بدل جائے گی ،ہرروز طلوع ہونے والا سورج میرے لئے نیا ہو جائے گا،میں تمھارے قدموں کی چاپ کا انتظار کروں گی ،
تمھاری آوازمجھے بھونروں کے درمیان موسیقی جیسی محسوس ہوگی۔ابھی تمھیں گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا ،لیکن جب تم مجھے پال کروگے تو تمہیں گندم کے کھیت کے رنگوں سے میرے بالوں کا رنگ یاد آئے گا ۔
بس محمد کومیں نے اور محمد نے مجھے ’’پال ‘‘لیا ،اب ہمارے درمیا ن د ل کے رابطے استوار ہو چکے تھے ،محمد اپنے گھر سے چلتا تو اسکے قدموں کی چاپ دل پے پڑتی،وہ آتا تو ہم بے تکے کھیلوں میں لگ جاتے ،بے تحاشہ چیخیں مارتے ،شائد اپنے اندر کی خاموشی کو توڑتے ،
پھر امی لندن سے واپس آگئیں ،نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے بچوں کو دیکھ دیکھ کرانکی آنکھیں البائنو ہو گئی تھیں ،انہیں یہ کالی آنکھوں اور کالے بالو ں والا بچہ کچھ زیا دہ نہیں بھایا تھا اور پھر وہ انکی ڈومین پے قابض بھی ہوگیا تھا ۔جہاں انکا حکم چلتاتھا اب اس نظام کا ریموٹ ایک چھوٹے سے بچے کے ہاتھ میں آگیا تھا ۔
پھر اچانک ایک دن محمد کی ماں آگئی ۔لمبے سیاہ بالوں والی پاکستانی ۔اسکی میڈیسن کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور بچوں کے پالنے کا مشکل وقت بھی ۔اب محمد اسکول جانے کی عمر کا ہوگیا تھااور محبت اسکی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ لگنے لگی تھی ۔اسکی ماں ایک ’’بڑی ‘‘عورت تھی اپنی ذات کا بھی حساب کتاب رکھنے والی عورت ،کیلکیولیٹر آنکھوں والی عورت ، اسکے کیلکیولیٹر نے حساب کرکے بتایا کے اب محمد نام کی پراپرٹی کی پاور آف اٹارنی لینے کا وقت آگیا ہے ۔
خوشی کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں آنسووں میں ڈھل گئیں ،خاموشی سے ۔۔
آج محمد ناروے جا رہا تھا ۔۔
’’ننھے شہزادے ،ٹاٹوش‘‘

No comments:

Post a Comment