Monday 22 September 2014

شہد کی مکھی


شہد کی مکھی

زیتون بی بی
(عالیہ ممتاز)


وہ میری زندگی میں مکھی کی طرح آئی تھی ،،بھن بھن کرتی مکھی کی طر ح ۔۔کسی لڑکی کو مکھی سے تشبیہ دینا غیر شاعرانہ بات ہے۔لیکن کوئی کوئی مکھی ہو تی ہے نا جو آپ کو زچ کر کے رکھ دیتی ہے۔۔کبھی ناک پہ کبھی کان پہ،کبھی گردن پہ بیٹھ کے آپ کی رٹ کو چیلنج کرتی ہے،،ہر دفعہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا نشانہ پکا ہے ۔۔لیکن دوسرے ہی لمحے آپ اپنی گردن ،اپنا گال سہلا رہے ہو تے ہیں۔۔اور وہ کہیں قریب ہی بھن بھن کررہی ہوتی ہے۔ ۔لا تعلق سی۔ وہ ہر صبح میری زندگی میں داخل ہوتی ۔اور میرے گرد بھن بھن کرتی گھومتی رہتی۔۔کبھی ٹیبل پے چڑھ کے ٹانگیں ہلاتی ،تو کبھی کرسی کے ہتھے سے ٹک جاتی ،کبھی میں اسکو بری طر ڈانٹ دیتا تو کمرے میں کافی دیر تک بڑی منحوس سی خامشی چھا جاتی ۔۔لیکن اسکی فطرت میں قرار نہیں تھا ۔پھر سے اسکی بھن بھن شروع ہوجاتی ۔۔تمھارے سر میں درد ہے نا؟ وہ بڑی معصومیت سے پوچھتی۔اسوقت میرا سر واقعی درد سے پھٹ رہا ہوتا۔تمہیں کیسے پتا؟خیر پتا تو مجھے بہت کچھ ہے ۔۔وہ اس لمحے بہت پر اسرار ہو جاتی ۔اسکی انکھوں میں پندرہویں کے چاند کی اداسیاں تیرنے لگتیں۔۔اسکا سحر
انگیز لہجہ میرے سر میں کیل ٹھونک کے مجھے چڑیا بنا دیتا ۔۔میں اسکے کاندھے پہ پھدکنے لگتا ۔۔لیکن یہ لمحات عارضی ہوتے ۔اسکے چہرے سے شرارت پسینے کی طرح پھوٹنے لگتی،اور میں اسی جھنجھلا ہٹ میں مبتلاہوجاتاجوبھن بھن مکھی کی وجہ سے ہوتی ہے ،وہ ہر لمحہ اپنا رنگ بدلیتی ۔کسی سنجیدہ موضع پر اسکی گرفت بڑی سخت ہوتی،مطالعہ اتنا وسیع ہوتا کہ مجھے اپنی کم علمی کا شد ت سیااحساس ہوتا۔۔ تھک ہار کر مجھے اس سے محبت ہو گئی۔ہتھیار ڈالنے والی محبت ۔۔میرا دل چاہتا اس مکھی کو چھوٹی سی ڈبیامیں بند کر کے اپنی کوٹ کی جیب میں رکھ لوں۔
پھر ایک دن اس نے چھوٹی چھوٹی کچھ نظمیں میرے سامنے رکھیں۔۔محبت میں ڈوبی ہوئی نظمیں۔شہد کے چھتے کی طرح اسکے لفظ لفظ سے رس ٹپک رہا تھا۔چہرے پے وہی جھجھک تھی جوکسی کمسن لڑکی کے چہرے پے پہلی بار لپ اسٹک لگانے پے آتی ہے ۔یہ تم نے میری لیئے لکھی ہے نا؟میرے لہجے محبت سے مدہوش ہو رہا تھا۔نہیں تو۔۔یہ تواکثر فجر کے بعد آمد ہوتی ہے۔اس نے گویاڈھٹائی سے ہتھیلی کی پشت سے لپ اسٹک صاف کی ۔۔میری محبت کے غباروں کو وہ ایسے ہی سوئیاں چبھو چبھو کے پھاڑتی رہتی۔۔
کبھی کبھی ایسا لگتا جیسے اس پر میری محبت کا اثر ہو رہا ہے ۔اسکی آنکھیں میرے لہجے کی طرح نشیلی ہوجاتیں۔میرے دل کو جیسے قرار آنے لگتا۔۔میں بہت محبت سے اسکا ہاتھ تھام کے پوچھتا تم کیا سوچتی ہو؟میں سوچتی ہوں کہ کاش میں چائے کے کھیتوں میں کام کرسکتی۔کتنا خوبصورت لگتا ہے نا؟میرا دل چاہا اسکے منہ پہ اتنی زور سے ماروں کہ اس کا منہ سوج جائے۔لیکن ا س کی شکل پہ اتنی لاتعلقی ہوتی کہ مجھے اپنے الفاظ بالکل بے معنی لگتے۔یکطرفہ محبت بڑی تکلیف دہ چیز ہوتی ہے ۔انسان یقین اور بے یقینی کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔عجیب سے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔محبت میں بے یقینی کا دکھ شائد بچھڑ جانے کے دکھ سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔اکیلے رونے کا دکھ ،آنکھ کھل جانے کاخوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ خود ترسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ کیفیت دھیرے دھیرے جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہے۔میں ہر روز اس کیفیت سے گزرتا۔ہر روز جینے اور مرنے کی اذیت ہوتی۔۔جس نے رفتہ رفتہ مجھے بہت خاموش کردیا تھا۔میرے اعصاب شکستہ ہو چکے تھے ۔کیونکہ وہ خود تو شہد کی مکھی کی طرح سارا دن کسی نہ کسی طرح مصروف ہوتی۔کبھی ملکہ مکھی کی طرح بیٹھی صرف ٹانگیں ہلا رہی ہوتی ۔اور کبھی کارکن مکھی کی طرح کاموں میں جٹی رہتی۔اسکو میری کیفیت کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔
سنو تم لکڑہارے بن سکتے ہو ؟اس نے ایک دن بڑے ہی خوبصورت لہجے میں فرمائش کی ۔۔لہجہ جتنا خوبصورت تھا فرمائش اتنی ہی بے ہودہ۔لیکن اسکالہجہ امید کی وہ ننھی کونپل تھا جو بڑی سخت راتوں اور کڑی دھوپ کے بعدزمین پھاڑکر باہر آئی تھی ۔
کیوں پوچھ رہی ہو؟میں اپنے لہجے کی خوشی کہ بڑی مشکل سے چھپایا۔بس میرا دل چاہتا ہے کہ میرا جنگل میں ایک گھر ہو۔میرا شوہر لکڑیاں کاٹ کر لائے اور میں اس پہ کھانا پکاؤں۔۔
اسکی آنکھوں کے جگنو جنگلوں میں راستہ بنا رہے تھے۔
واقعی تم چاہتی ہو کہ ہمارا ایسا گھر ہو۔؟میرا دل جسم سب رقص میں تھے ۔
نہیں میں تو سوچ رہی تھی کہ کوئی اتنا بھی بیوقوف ہو سکتا ہے ؟کہ میری یہ خواہش بھی پوری کردے۔۔اسکے لہجے کی شوخی نے تازہ تازہ سر اٹھانے والی کونپل پے تیزاب ڈال دیا۔۔
وہ پھر سے شہد جمع کرنے میں مشغول ہو گئی ۔۔ہر خانے میں برابر ،ناکم نا زیادہ،
لیکن اس دن میں بہت مایوس ہوا تھا ،پتہ نہیں کیوں میں اکیلا ہو گیا تھا،سب کے بیچ،کونپل مر جاتی ہے لیکن بیج میں دوبارہ نہیں جاسکتی،میں بھی اسکی محبت سے واپس اپنے مقام تک نہیں جاسکتا تھا،لیکن تھک گیا تھا،تنہا ،اداس ۔ہجوم کی تنہائی ،تنہائی کی سب سے کتیُ قسم ہوتی ہے ،اس میں بندہ خود سے بھی کمپرومائز کرلیتا ہے ، میں نے بھی کر لیا۔
ایسی ہی اداسی کے دن تھے جب ایک اور مکھی میری زندگی میں داخل ہوئی ۔۔سادہ سی عام سی ،محبت کا جواب محبت سے دینے والی ،اس میں بھن بھن بہت کم تھی ،سیدھے سے کاٹن کے دھاگے کی بنی ہوئی ،ریشم کی ڈور کا کوئی الجھاوہ نہیں،کوئی پیچ کوئی سنک نہیں ،مرد کو ایسی ہی مکھیوں میں سکون ملتا ہے،جس میں اسکو ذہنی جدوجہد نہ کرنی پڑے،سیدھی بات کا سیدھا جواب ،دو اور دو چار کی طرح ،ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے ،غزہ پہ بمباری ہو ،آئی ایم ایف قیمتیں بڑھائے مکھیوں کی اس قسم پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عورت کی سب سے بڑی دشمن ،ذہانت ہوتی ہے ۔یہ اسکو کبھی خوش نہیں ہونے دیتی ،تجزیہ کرنے کی قوت اسکو تباہ کر دیتی ہے ۔ہمیشہ خوش رہنے کے لئے تھوڑا بہت بے وقوف ہونا بہت ضروری ہے ۔وہ محبت کو بھی جانچنے پرکھنے لگتی ہے ۔ذہین عورت کے سامنے مرد خود کو بڑا چھوٹا سمجھنے لگتا ہے ۔اسکی مردانگی کو ٹھیس لگتی ہے ۔اس کا حاکمانہ پندار مجروح ہوتا ہے جبکہ ایک عام عورت اسکو خاص ہونے کا یقین دلاتی ہے۔روٹھنے اور منانے ،فرمائشیں کرنے کے عرصے میں ایک مرد کو اپنے سپر مین ہونے کا یقین ہوجاتا ہے ۔وہ ہتھیار پھینک کے عورت کو اون کر لیتا ہے ۔ایک عام سی عورت جیت جاتی ہے اور ساری زندگی مرد پہ حکومت کرتی ہے ۔اسکی کمزوری ہی اسکی طاقت بن جاتی ہے ۔ذہین عورت کو یہ گر نہی آتا ،وہ ہار جاتی ہے ۔
شہد کی مکھی کا بھی ڈنک ٹوٹ چکا تھا۔
جدائی کے اس مرحلے میں اسکی خاص آنکھوں میں بڑے عام سے آنسو تھے۔۔!

1 comment:

  1. اتنا عمدہ لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
    خواتین و حضرات میرا پکا ایمان ہے کہ مرد ہو یا عورت، انسان کے لئے تھوڑا سا بیوقوف ہونا ضروری ہے۔ بیوقوف آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے اس واسطے کہ دنیا کی بہت سی کجیاں اور خرابیاں، کہ خالق و قادرِ دو جہاں نے یہ جہاں اسی طرح بنایا ہے، کو قبول کرکے اسی میں جیتا رہتا ہے۔ راضی بالرضا و بہ خوشی و خوبی۔ جو جتنا بے وقوف ہے اتنا ہی کامیاب ہے۔
    اب ایک اندر کی بات ہو جائے۔ مرد کو ایک عدد بیوقوف بیوی اور ایک عدد ذبین محبوبہ کی ہمہ وقت ضرورت لاحق رہتی ہے۔ یاد رہے کہ اول الذکر کے ذہین ہونے کی صورت

    ReplyDelete